• KHI: Maghrib 5:56pm Isha 7:17pm
  • LHR: Maghrib 5:12pm Isha 6:39pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:41pm
  • KHI: Maghrib 5:56pm Isha 7:17pm
  • LHR: Maghrib 5:12pm Isha 6:39pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:41pm

نئے سال کا آغاز: پاکستان 2 سال کیلئے سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن بن گیا

شائع January 1, 2025
— فائل فوٹو: اقوام متحدہ
— فائل فوٹو: اقوام متحدہ

نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان آج آٹھویں مرتبہ 2 سال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت سے پاکستان کو اہم بین الاقوامی امور پر بات چیت کا موقع میسر آئے گا تاہم اسے اہم مشکلات بھی درپیش ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان آٹھویں بار 15 رکنی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا ہے، جون میں پاکستان سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہوا تھا، جنرل اسمبلی کے 193 رکن ممالک میں سے 182 ممالک نے پاکستان کو ووٹ دیے تھے جو دو تہائی اکثریت کے لیے مطلوب 124 ووٹوں سے کہیں زیادہ تھے۔

پاکستان اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایشیا بحرالکاہل کی دو نشستوں میں سے ایک پر براجمان ہے، پاکستان جولائی میں سلامتی کونسل کی صدارت کرے گا، جو ایجنڈا سازی اور بات چیت کو فروغ دینے کا ایک اہم موقع ہے۔

پاکستان دولت اسلامیہ اور القاعدہ کی پابندیوں کی کمیٹی میں بھی ایک نشست حاصل کرے گا جو ان تنظیموں سے وابستہ افراد اور گروہوں کو دہشت گرد قرار دینے اور پابندیاں عائد کرنے کی ذمہ دار ہے۔

یہ پاکستان کے لیے سرحد پار افغانستان سے حملہ آور القاعدہ اور داعش سے طویل عرصے سے منسلک سے گروپوں کو اجاگر کرنے کا بھی نادر موقع ہے۔

اگرچہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار صرف مستقل ارکان کے پاس ہے تاہم غیر مستقل ارکان دہشت گردی سے متعلق پابندیوں کی کمیٹیوں میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتے ہیں کیونکہ فیصلے طے شدہ اصولوں کے تحت اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔

تاہم عالمی سیاست کی ٹوٹی پھوٹی صورتحال اور کونسل کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم سے اسلام آباد کی اپنی سفارتی ترجیحات کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کا امتحان ہو سکتا ہے۔

عالمی اور علاقائی مسائل

پاکستان کی یہ مدت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ، مقبوضہ کشمیر اور شام جیسے تنازعات زدہ علاقوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

فلسطین کے لیے اس کی دیرینہ حمایت اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے اس کی وکالت نمایاں طور پر سامنے آنے کی توقع ہے۔ اس کے باوجود، ان کوششوں کو جغرافیائی سیاسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

مثال کے طور پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے غزہ میں انسانی بحران سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جنگ بندی، بلا روک ٹوک انسانی رسائی اور شہری ہلاکتوں کے احتساب کا مطالبہ کیا، دو ریاستی حل کے لیے اسلام آباد کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے ’کونسل کے اندر اختلافات پر قابو پانے کے چیلنج‘ کو تسلیم کیا، جہاں ویٹو اختیارات اکثر اتفاق رائے کو متاثر کرتے ہیں۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانے مسائل میں سے ایک مسئلہ کشمیر کی بحالی کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، سفیر منیر اکرم نے کہا کہ ہم کشمیریوں کی حالت زار کو اجاگر کرتے رہیں گے اور عالمی برادری سے ٹھوس اقدامات پر زور دیتے رہیں گے۔

تاہم بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ اور کشمیر پر خاموش بین الاقوامی ردعمل نے اسلام آباد کی وکالت کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

ابھرتے ہوئے تنازعات، محدود فائدہ

علاقائی ترجیحات سے ہٹ کر شام کے تنازع پر پاکستان کا موقف شام کی خودمختاری اور سیاسی حل کے لیے اس کے عزم کی عکاسی کرتا ہے، سفیر منیر اکرم نے شام کی قیادت میں اقوام متحدہ کی مدد سے امن عمل کے لیے پاکستان کی حمایت کا خاکہ پیش کیا۔

تاہم، بڑی طاقتوں کے تنازع کی حرکیات پر حاوی ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کی نتائج کو تشکیل دینے کی صلاحیت محدود ہے۔

تنازعات میں محدود اثر و رسوخ کے حقائق کے ساتھ اپنے اصولی موقف میں توازن برقرار رکھنا پاکستان کے لیے چیلنج ہے جہاں طاقت کی حرکیات کثیرالجہتی سفارتکاری پر حاوی ہیں۔

کثیرالجہت پسندی

پاکستان کے وسیع تر ایجنڈے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کی وکالت کرنا شامل ہے تاکہ اس ادارے کو زیادہ نمائندہ اور جوابدہ بنایا جا سکے، اسلام آباد نئے مستقل ارکان کے اضافے کی مخالفت کرتا ہے اور اس کے بجائے غیر مستقل ارکان کی تعداد میں توسیع کا حامی ہے۔

منیر اکرم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جمہوری کونسل کے لیے باقاعدگی سے انتخابات اور روٹیشن ضروری ہے، یہ موقف مساوی عالمی حکمرانی کے خواہاں چھوٹے ممالک کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے لیکن کونسل میں مستقل دشمنی سے بچنے میں پاکستان کے تزویراتی مفادات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

مواقع اور حد بندیاں

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی آٹھویں مدت قیام امن اور کثیرالجہت پسندی کے لیے اس کے عزم کی عکاسی کرتی ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 5 غیر مستقل ارکان میں سے ایک کی حیثیت سے اسلام آباد کا مسلم دنیا کی آواز کے طور پر کردار اہم ہے۔

تاہم کونسل کے اندر تقسیم اور بڑی طاقتوں کے مسابقتی مفادات او آئی سی ممالک کی اپنے مفادات کو فروغ دینے کی صلاحیت کا بھی امتحان لیں گے۔

اگرچہ پاکستان کشمیر سمیت علاقائی مسائل اور فلسطین جیسے عالمی خدشات کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی مدت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس کی سفارتی تیز رفتاری اور منقسم کونسل میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت پر ہے، یہ اصطلاح اپنی عالمی حیثیت کو بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن اس کو درپیش مسائل بھی اتنے ہی مشکل ہیں۔

منیر اکرم نے پاکستان کی امنگوں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کو برقرار رکھنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان اور اقوام متحدہ کی وسیع تر رکنیت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 جنوری 2025
کارٹون : 3 جنوری 2025