عمران خان فوج میں بغاوت کو اُکسانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوپائے؟

شائع December 31, 2024
—السٹریشن: ابڑو
—السٹریشن: ابڑو

سیاسی علوم میں ایک دلچسپ اصطلاح ہے جسے ’سیلف کو‘ (خود ساختہ بغاوت) کہا جاتا ہے۔ خودساختہ بغاوت وہ ہوتی ہے جو ایک منتخب صدر یا وزیراعظم غیرآئینی یا ماورائے آئینی طریقوں سے اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھے یا اسے وسعت دے اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کرنے کے لیے اُکسائے۔

وہ عوامی رہنما جو خود ساختہ بغاوت کرتے ہیں، انہیں سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں دونوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ اسی حمایت کا استعمال کرتے ہوئے بغاوت کرتے ہیں۔ وہ اپنے سپورٹرز کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے وہ ان میں ایسے خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں جس کے تحت وہ اپنے حامیوں کو ریاستی اداروں اور حکومت کے دشمن بنا دیتے ہیں۔

اپریل 2022ء میں لکھے گئے اپنے مضمون میں امریکی سیاستدان ڈیویڈ پیون برلن لکھتے ہیں کہ خودساختہ بغاوت کی سب سے بڑی مثال 6 جنوری 2021ء کو کپیٹل ہل کی عمارت پر ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد وہ اقتدار سے محروم ہوگئے تھے۔

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے محض چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو اکسایا کہ وہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیں۔ ان کی تقریر کے بعد سیکڑوں حامیوں نے کپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔ یہ امکان بھی پایا جاتا ہے ٹرمپ کو امید تھی کہ انہیں دائیں بازو کے عوامی حلقوں کے علاوہ ملٹری اور عدلیہ سے بھی کسی حد تک حمایت مل جائے گی۔ پیون برلن کے مطابق خودساختہ بغاوت اگر مسلح افواج کی حمایت حاصل نہ کرپائے تو یہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔

ٹرمپ کے سیکڑوں حامیوں بالخصوص دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں نے کپیٹل عمارت جو امریکی جمہوریت کی اہم علامت ہے، حملہ کرکے ریاستی اداروں سے اپنی دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن امریکی افواج نے کسی بھی حمایت سے انکار کردیا۔ درحقیقت ملٹری نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا حکم دیا۔

تاہم یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے مختلف خیالات نے جنم لیا کیونکہ گارڈ تعینات کرنے کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا تھا کہ ٹرمپ کی حمایت کے لیے ایسا کیا جارہا ہے کیونکہ بہت سے مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی ملٹری میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کا نیٹ ورک انتہائی مضبوط ہے۔ لیکن ان قیاس آرائیوں کے برخلاف ایسا کچھ نہیں ہوا۔

1850ء کی دہائی اور 2021ء تک دنیا کے مختلف ممالک میں کم از کم 22 خودساختہ بغاوت کامیاب ہوپائی ہیں۔ ان سب میں اس وقت کا سربراہ مملکت مسلح افواج کی حمایت سمیٹنے میں کامیاب ہوگیا تھا (اور بہت سے معاملات میں انہیں عدلیہ کی حمایت بھی حاصل تھی)۔ لیکن ناکام خودساختہ بغاوت کی مثالیں بھی کم نہیں ہیں۔ سب سے تازہ ترین مثال جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سوک یول کی مارشل لا لگانے کی کوشش ہے۔

5 دسمبر کو پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو عدالت نے عوام کو ’ملٹری کے خلاف تشدد پر اکسانے‘ کا الزام عائد کیا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ 2023ء میں انہوں نے بدنامِ زمانہ 9 مئی واقعات کی صورت میں ایسا کیا جہاں ان کے حامیوں نے متعدد فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔

جلد ہی ان کے ناقدین نے الزام عائد کیا کہ وہ جنرل عاصم منیر کے خلاف فوج میں دھڑا بندی کی کوشش کررہے ہیں۔ بہ ظاہر منصوبہ یہ تھا کہ ملٹری تنصیبات پر حملوں سے فوج میں موجود ’پرو-خان‘ فوجی افسران کے جذبات جاگ جائیں گے اور وہ ’خان مخالف‘ جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت کرکے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گے اور عمران خان کو ایک بار پھر حکومت سونپ دیں گے۔

کیا اسے خودساختہ بغاوت کی ایک مثال سمجھا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب ہاں ہے اور نہیں بھی۔ سب سے پہلے عمران خان اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجانے پر برطرف ہوگئے تھے۔ جب 9 مئی ہوا تب وہ برسراقتدار نہیں تھے۔ تو اس اعتبار سے انہیں خودساختہ بغاوت کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ برسراقتدار موجود حکومت یا ریاست کے سربراہان جو خودساختہ بغاوت کرتے ہیں وہ مسلح افواج کی حمایت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کبھی بھی بالخصوص ملٹری کو ناراض نہیں کرتے یا ان پر حملہ نہیں کرتے۔

لیکن 2022ء میں عمران خان کی برطرفی کے بعد انہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے عمران خان کو چھوڑ دیا اور ’کرپٹ جماعتوں‘ کی تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے میں مدد کی۔ تو اس اعتبار سے فوج میں بغاوت اکسانے کی ان کی کوشش کو خودساختہ بغاوت میں شامل کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی نہیں ہے۔

لیکن اس کے باوجود خودساختہ بغاوت کے دیگر پہلو بھی ہیں جو ہمیں 9 مئی کے واقعے میں نظر آئے۔ اگرچہ لیڈر برسراقتدار نہیں تھے لیکن وہ اقتدار میں واپسی کے لیے ملٹری سے آس لگائے ہوئے تھے۔ اپنی برطرفی کے بعد وہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ پر پھٹ پڑے تھے، اسے دیکھتے ہوئے یہ عجیب لگ سکتا ہے لیکن عمران خان متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ زیادہ تر ملٹری ان کی طرف ہے۔ تو انہیں یہ یقین ضرور تھا کہ ادارے میں بڑی تعداد ان کی حامی ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جنہوں نے نام نہاد ’عمران خان پروجیکٹ‘ میں نمایاں کردار ادا کیا، اعتراف کیا کہ ملٹری میں ایک بڑا دھڑا عمران خان کی حمایت کرتا ہے۔ 2022ء کی الجزیرہ کی رپورٹ میں واشنگٹن کے نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی تھنک ٹینک کے تجزیہ کار کامران بخاری نے کہا کہ جب 2022ء کے اواخر میں جنرل باجوہ ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک ایسی ملٹری پیچھے چھوڑی تھی جو تقسیم ہوچکی تھی، ’ان میں سے بہت سے افسران اب بھی عمران خان کی حمایت کرتے ہیں‘۔

قمر باجوہ کے جان نشین جنرل عاصم منیر نے نومبر 2022ء میں اپنی تعیناتی کے بعد پورا ایک سال ادارے میں موجود عمران خان کے حامیوں سے نمٹتے ہوئے گزار دیا۔ اس کے باوجود عمران خان جو مئی 2023ء میں باوردی افسران کو بغاوت پر اکسانے کی اپنی کوشش میں ناکام رہے۔

عمران خان کو اس دوران عدلیہ کی بھی کسی حد تک حمایت حاصل تھی جس کی بنا پر عدلیہ نے متعدد مواقع پر ان کے سیاسی کریئرکو 9 مئی کے بدنما داغ سے بچایا۔ تاہم عمران خان کا خیال ہے کہ یہ پُرتشدد واقعات خود ملٹری کی سازش تھے۔ وہ اسے ’آپریشن ریڈ فلیگ‘ کہتے ہیں۔

یہ الزامات کہ عمران خان فوج میں بغاوت کو اکسانا چاہتے تھے وہ سب محض الزامات ہی ہیں جو ثابت نہیں ہوپائے لیکن آپریشن ریڈ فلیگ کے مفروضے کی نسبت سیاسی مبصرین ان الزامات کو حقیقی ماننے لگے ہیں کہ وہ فوج میں بغاوت کے خواہاں تھے۔ تو اگر واقعی عمران خان نے اقتدار میں واپسی کے لیے ایسا کیا تو کیا یہ خودساختہ بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا؟

خودساختہ بغاوت اس وقت ہوتی ہے کہ جب کوئی عوامی لیڈر اپنے ماورائے آئین منصوبوں کے لیے طاقتور اداروں سے حمایت لینے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ عمران خان اس وقت وزیراعظم نہیں تھے تو ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جزوی طور پر بغاوت کو بھڑکانے کی کوشش تھی۔

ملٹری کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ عمران خان فوج میں موجود اپنے حامیوں کی مدد سے بغاوت کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔ اگر یہ الزام ثابت ہوجاتا ہے تو اسے عوامی لیڈر کی جانب سے سازش کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے اور ان کے اس منصوبے کو فوج میں موجود چند افسران کی حمایت بھی حاصل تھی جو موجودہ آرمی چیف کوبرطرف کرنا چاہتے تھے۔

اسے خودساختہ بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان برسراقتدار نہیں تھے لیکن پھر بھی انہیں اہم ریاستی اداروں میں حمایت حاصل رہی اور انہیں ایسے عوام کی سپورٹ حاصل تھی جو ان کے ایک اشارے پر تمام حدیں عبور کرنے کے لیے تیار تھے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 3 جنوری 2025
کارٹون : 2 جنوری 2025