پتھر کے دور میں خوش آمدید: پاکستان انٹرنیٹ بندش والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا
پاکستان انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے دورانیے کے لحاظ سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے والے ٹاپ 10 وی پی این کے مطابق پاکستان 2024 میں شٹ ڈاؤن کے دورانیے کے لحاظ سے صرف میانمار سے ایک ہزار 861 گھنٹے پیچھے، دوسرے نمبر پر ہے۔
اس سے ہمیں ایک اندازے کے مطابق 35 کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا، جو ہمارے جنوبی ایشیائی ہم عصروں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، جہاں ہم نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا وہ یہ تھا کہ تقریباً 8 کروڑ 30 لاکھ صارفین کے ساتھ، ہمارے کام کے وعدوں میں ’بددیانتی‘ کی تعداد کوئی متوازی نہیں تھی، بلکہ 15 سب سے زیادہ کمزور ممالک میں سے 40 فیصد سے زیادہ تھی۔
یہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے ایک سنجیدہ حقیقت کی جانچ ہے، جسے پہلے ہی میکرو غیر یقینی صورتحال، سرمائے کی کمی اور ٹیلنٹ کی کمی سمیت چیلنجز درپیش ہیں، اب اس فہرست میں ایک اور ٹھوس اور غیر ضروری مسئلہ موجود ہے جو کسی عمارت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
غیر ملکیوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرنے والے کسی بھی پاکستانی نے شاید مشکل سوالات کا جواب دینے کا فن سیکھ رکھا ہے، چاہے وہ ہماری جمہوریت، انسانی حقوق یا سلامتی کی حالت کے بارے میں ہوں، یہ بہت سارے سیاق و سباق اور کبھی کبھار ہونے والی بات چیت یا آرام دہ گفتگو سے بہت دور ہے، لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے، یہ سب چھوٹی موٹی باتیں ہیں، جن کے حقیقی نتائج کچھ بھی نہیں ہیں۔
گزشتہ چند سال میں غیر ملکی کلائنٹس کے ساتھ کام کرنے والوں میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، کیونکہ پاکستان کے بارے میں سوالات چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور براہ راست کاموں کی انجام دہی کی صلاحیت سے متعلق ہوتے ہیں، یہ اب نظریاتی نہیں ہے ’کیا وہاں جانا محفوظ ہے؟‘ بلکہ پیشگی ’کیا آپ انٹرنیٹ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے منصوبے کی بروقت تکمیل کی ضمانت دے سکیں گے؟‘
پاکستان نے انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے اپنی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور 2023 میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا جو دورانیہ 259 گھنٹے تھا، اب 619 فیصد بڑھ گیا ہے، جو عالمی سطح پر ساتویں نمبر سے 5 درجے اوپر ہے، نتیجتاً اس کے ساتھ آنے والے اخراجات میں بھی 11 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
تجارتی تنظیموں نے اپنے اعداد و شمار پیش کیے ہیں، جن میں پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن نے انٹرنیٹ کی بندش کے ہر گھنٹے کے لیے 10 لاکھ ڈالر کے نقصان کا دعویٰ کیا ہے، پاکستان کو پیش آنے والے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے درمیان، انفارمیشن اور مواصلات کا شعبہ ڈالر کے ایک مضبوط ذریعے کے طور پر ابھرا ہے۔
سال 2024 کے 11 ماہ میں، آئی ٹی سیکٹر نے قومی معیشت میں 3.3 ارب ڈالر کا تعاون کیا، جو صرف ٹیکسٹائل اور فوڈ گروپ سے کم اور مجموعی طور پر تیسرا بڑا شعبہ ہے، خاص طور پر خدمات کے شعبے میں، یہ واحد زمرہ ہے جو مستقل طور پر سرپلس کا اندراج کرتا ہے۔
کیا انٹرنیٹ کی بندش اس کو ختم کر دیتی ہے؟ ظاہر ہے نہیں، لیکن اسے مقامی ٹیک کمپنیوں کے آپریشنز کی لاگت بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشانی اٹھاتی ہیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش ان کمپنیوں کی ضرورت سے زیادہ فاریکس واپس لانے کی حوصلہ شکنی کی وجہ بنتی ہے، اس سے غیر دستاویزی برآمدات کے مسئلے میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جو کچھ تخمینوں کے مطابق سرکاری طور پر ریکارڈ کردہ اعداد و شمار کے برابر ہے، جب تک موخرالذکر صحت مند نمو دکھا رہا ہے، ہمارے حکمران اصل میں غیر دستاویزی برآمدات کے معاملے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، کیونکہ اس کی پیمائش ویسے بھی نہیں کی جاسکتی۔
تاہم، جس چیز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں سست روی ہے، کلاؤڈفلیئر کے مطابق ملک میں 2024 کے زیادہ تر عرصے میں ویب ٹریفک میں سالانہ کمی دیکھی گئی ہے، درحقیقت، پہلے 11 مہینوں کے دوران مجموعی طور پر 30 دن ایسے تھے، جب فیصد کی تبدیلی ریڈ نہیں تھی، اس عرصے کے دوران ہماری بلند ترین شرح نمو 3 فیصد رہی جو عالمی سطح پر 17 فیصد تھی۔
ذہن میں رکھیں کہ ہمیں دستیاب انٹرنیٹ کا معیار بالکل اچھا نہیں ہے، پاکستان میں اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ صرف 22 ایم بی پی ایس رہی، جو فلپائن میں 97 ایم بی پی ایس، بنگلہ دیش 37 ایم بی پی ایس اور انڈونیشیا میں 31 ایم بی پی ایس تھی، پاکستان خطے میں اپنے ہم منصبوں سے بھی بہت پیچھے رہا۔
انٹرنیٹ بندش کے واقعات نوجوان اور باصلاحیت پاکستانیوں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے انہیں کیا ترغیب ملتی ہے؟
بہرحال، باصلاحیت نوجوانوں کی محنت سے کمائی گئی رقم کی قیمت پچھلے کچھ سالوں میں نصف سے بھی کم ہو گئی ہے، جب کہ اسی عرصے میں ہر چیز مہنگی ہوئی ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں سب کو تمام حقوق حاصل نہیں، لیکن کم از کم ہر ایک کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی تھی، تاہم اس پر بھی ضرب لگنا شروع ہوگئی ہے۔