• KHI: Asr 4:18pm Maghrib 5:55pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:11pm
  • ISB: Asr 3:32pm Maghrib 5:11pm
  • KHI: Asr 4:18pm Maghrib 5:55pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:11pm
  • ISB: Asr 3:32pm Maghrib 5:11pm

سال 2025ء میں دنیا کو کیا اہم چیلنجز درپیش ہوں گے؟

شائع December 30, 2024

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا آج جتنی عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ رہی ہو۔ جغرافیائی سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات نے آنے والے سال کو مزید پریشان کُن بنا دیا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے عالمی آرڈر مسائل سے دوچار ہے۔ دوسری جانب کثیر قطبی دنیا کی جانب بڑھتے ہوئے جھکاؤ کی وجہ سے مغربی تسلط کم ہوتا جارہا ہے جبکہ کثیرالجہتی ادارے شدید دباؤ میں ہیں۔ طاقت کے عالمی توازن میں تبدیلیوں کے منظر نامے میں جغرافیائی سیاست کی تشکیل میں درمیانی طاقتیں اہم کردار ادا کریں گی۔

2025ء کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ حکومت، عالمی معاملات میں مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا؟ ان کی اعلان کردہ پالیسیز تشویش ناک ہیں جو پہلے سے ہی مشکلات سے گھری دنیا کے حالات کو مزید بگاڑ دیں گی۔

جغرافیائی سیاسی سطح پر یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ ٹرمپ کی حکمرانی میں امریکا اپنے اتحادیوں، مخالفین اور حریفوں سے کیسے ڈیل کرتا ہے۔ اگلے سال میں امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کا مستقبل کیسا رہے گا، یہ بھی اسٹریٹجک اعتبار سے اہمیت کا حامل ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرمتوقع شخصیت کے پیش نظر چین اور امریکا کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا پتا وہ دونوں ممالک میں کشیدگی میں مزید اضافہ کردیں، یہ اب ان کے طرزِعمل پر منحصر ہے کہ وہ معاملات کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔

امریکا کے ساتھ تجارتی سرپلس والے چین سمیت دیگر ممالک پر زیادہ محصولات عائد کرنے کی ٹرمپ کی دھمکی نے بہت سے ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ 2025ء کے سب سے بڑے خطرات میں عالمی تجارتی جنگ بھی شامل ہوگی۔ لندن میں قائم رسک کنسلٹنسی فرم، کنٹرول رسکس نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ سال ’قومی سلامتی کو بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے رہنما اصول کے طور پر قائم کرے گا‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی تحفظ پسندی میں واشنگٹن کس حد تک جائے گا، یہ چین امریکا تعلقات کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لیے بھی نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ تاہم بڑے تجارتی شراکت دار خاص طور پر چین پہلے ہی اس حوالے سے سرگرم ہیں کہ اپنی حکمت عملیوں کو ٹرمپ سے کیسے محفوظ بنایا جائے۔ دی اکانومسٹ نے اپنی سالانہ اشاعت ’دی ورلڈ آہیڈ ان 2025ء‘ میں نوٹ کیا ہے کہ چینی فرمز پہلے ہی تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ گلوبل ساؤتھ میں نئی مارکیٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک خود کو وسعت دے رہی ہیں۔ بلیک راک کے ایک جائزے نے امریکا اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے فرق کو ایک بڑھتے ہوئے عالمی خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

2025ء طے کرے گا کہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں کے نتائج کیا ہوں گے۔ یوکرین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پالیسیز میں تبدیلی کے بیانات پہلے ہی یورپی حکومتوں کو بےچین کررہے ہیں۔ وہ اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یوکرین جنگ ’ایک دن میں‘ ختم کروا سکتے ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ ٹرمپ یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے مجبور کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے مسئلہ حل کرنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے مذاکرات سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جس سے روس کو فائدہ ہو اور یوکرین کو اپنی کچھ زمین سے دستبردار ہونا پڑے۔

ڈونلڈ ٹرمپ یہ بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں دیں لیکن گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ جنگ بندی بھی اگر ہوگی تو وہ اسرائیل کی شرائط پر ہوگی۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن شام میں حکومت کی تبدیلی کے پیچیدہ علاقائی اثرات کے پیش نظر وہ کیسے امریکا کو اس معاملے سے دور رکھ پائیں گے، یہ دیکھنا اہم ہوگا۔

دنیا بھر میں جمہوریت کو چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ گزشتہ چند سالوں میں جو رجحانات سامنے آئے ہیں وہ کسی صورت حوصلہ افزا نہیں۔ بہت سے ممالک میں سیاست زیادہ تقسیم کا شکار اور غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست میں درمیانی راستے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے جبکہ سیاسی مرکز عالمی سطح پر کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کے پاپولزم کے عروج سے ہے جس کا اثر و رسوخ یورپ کے کئی حصوں میں بڑھ رہا ہے جبکہ یہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں جمہوریت کمزور ہوئی ہے۔ بہت سے بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کمزور ہوتی جمہوریت کو اجاگر کیا ہے جبکہ جتنے زیادہ ممالک میں ’آمرانہ طرزِ حکمرانی‘ بڑھی گی اور جمہوری حقوق اور آزادی کم ہوگی، یہ مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ عالمی تھنک ٹینکس جو جمہوریت کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں، جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں۔ عوام کی توقعات سوشل میڈیا کی وجہ سے بڑھ چکی ہیں جبکہ سیاسی نظام ان معیارات اور توقعات پر پورا نہیں اتر پا رہے۔ عالمی خطرات کی پیش گوئی کرنے والی کچھ انٹیلی جنس کمپنیز نے کہا ہے کہ دنیا کے زیادہ تر خطوں میں بدامنی بڑھنے کے خدشات ہیں۔

آنے والے سال کا ایک اور سب سے بڑا چیلنج عالمی تجارتی جریدے گلوبل ٹریڈ ریویو کے مطابق ’گرے زون جارحیت پسندی‘ ہے۔ یہ ایسا خطرہ ہے جو بیان کرنا مشکل ہے لیکن اس کی تشخیص انتہائی ضروری ہے۔ اس میں غلط معلومات پھیلانے کی مہمات، سائبر حملے اور پراکسی وارز شامل ہیں۔ ایسے عوامل تنازعات اور امن کے وقت کے درمیان کی لکیر کو دھندلا دیتے ہیں۔

نئی طرز کی یہ جنگ دنیا بھر میں لڑی جارہی ہے جس کی وجہ سے ممالک اس سے مقابلے کے لیے تیار نہیں ہوتے نہ ان کے پاس نمٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس سے ’بلیک سوان‘ (غیرمتوقع) واقعات بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں اور اچانک ہونے والی جغرافیائی سیاسی پیش رفت جن کے دور رس نتائج ہوتے ہیں، طاقت کے موجودہ توازن کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اس سے نئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ہونے والی ترقی پر بھی 2025ء میں نظر رکھنا ہوگی۔ کاروبار، دفاتر، انٹرٹینمنٹ، میڈیا، صحت عامہ اور ذاتی زندگیوں میں اے آئی ٹولز کا استعمال زیادہ عام ہوجائے گا۔ مصنوعی ذہانت پہلے ہی بہت سی تبدیلیاں لے کر آیا ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئے چیلنجز جنم لیں گے جس میں سائبر سیکیورٹی کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ ملٹری میں اے آئی کے استعمال سے بھی اضافی چیلنجز سر اٹھائیں گے۔

برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کا خیال ہے کہ سال 2025ء میں اے آئی کی عالمی نگرانی پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس نے فروری میں پیرس میں ہونے والی اے آئی ایکشن سربراہی اجلاس کی جانب اشارہ کیا ہے جس میں حکومتی نمائندگان، ٹیک کمپنیز، سائنسدان اور ماہرین شرکت کریں گے اور اے آئی کو ’عوام کے مفاد‘ کے مطابق لانے کے لیے بات چیت کریں گے۔ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی نے مشکل سوالات اٹھائے ہیں کہ اس ترقی کے متاثر کُن اثرات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوریوں سے کیسے نمٹا جائے۔ جہاں ایک ڈیجیٹل دنیا چیلنجز لاتی ہے وہیں یہ معاشی اور سماجی شعبہ جات میں ترقی کے نئے مواقع بھی پیش کرتی ہے۔

آنے والا سال اپنے ساتھ جغرافیائی تناؤ اور معاشی چیلنجز لے کر آئے گا جوکہ نہ صرف اقوام کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوں گے بلکہ یہ بھی بتائیں گے کہ بین الاقوامی برادری مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر کیسے کام کرتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 2 جنوری 2025
کارٹون : 1 جنوری 2025