• KHI: Fajr 5:54am Sunrise 7:16am
  • LHR: Fajr 5:34am Sunrise 7:01am
  • ISB: Fajr 5:43am Sunrise 7:12am
  • KHI: Fajr 5:54am Sunrise 7:16am
  • LHR: Fajr 5:34am Sunrise 7:01am
  • ISB: Fajr 5:43am Sunrise 7:12am

حکومت کے افراط زر میں کمی کے دعووں کے برعکس عوام مہنگائی سے پریشان

شائع December 27, 2024
—فوٹو: ڈان
—فوٹو: ڈان

حکومت کی جانب سے افراط زر میں کمی کے دعووں کے بر عکس عوام مہنگائی سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں مزدوری کرنے والے خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقے نتھیاگلی سے تعلق رکھنے والے محمد الطاف حکومت کے اس دعوے سے مطمئن نہیں ہیں کہ افراط زر میں کمی آ رہی ہے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اس مزدور کا اصرار ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں محض کمی کو ریلیف نہیں کہا جا سکتا، جبکہ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔

الطاف گزشتہ 25 سال سے کراچی میں اپنی گاڑی پر سبزیاں فروخت کر رہے ہیں، وہ 3 گھر والوں کے ساتھ 2 کمروں کے 80 گز کے پوریشن میں رہتے ہیں، جس کے لیے وہ مجموعی طور پر ہر ماہ 12 ہزار روپے کرایہ ادا کرتے ہیں۔

کے الیکٹرک انہیں گھر میں 2 سے 3 ایل ای ڈی بلب اور 2 پنکھے چلانے پر 10 سے 12 ہزار روپے ماہانہ بل بھیجتی ہے، جب کہ 3 وقت کے کھانے پر 800 سے 1000 روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔

ایک دکان دار 3 سے 4 لوگوں کے ساتھ روزانہ 10 ہزار روپے تک کی سبزیاں خریدتا ہے، انہیں سپر ہائی وے سبزی منڈی سے جہاں بھی لے جائے گا، وہاں لے جانے کے لیے تقریبا 400 روپے کا کرایہ ادا کرتا ہے، صارفین کو سبزیاں دینے کے لیے شاپنگ بیگز کی قیمت 500 روپے فی کلو ہے۔

اس کے علاوہ، الطاف نتھیا گلی میں اپنی فیملی کو ہر مہینے 30 ہزار روپے بھیجتے ہیں، جو ان کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ’ناکافی‘ ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک سال پہلے، میں ماہانہ 20 سے 22 ہزار روپے گھر بھیجتا تھا۔

اسی طرح ایک درزی شلوار قمیض سوٹ کی سلائی کے لیے 2 ہزار سے ڈھائی روپے وصول کرتا ہے، جب کہ صابن اور واشنگ پاؤڈر جیسی دیگر بنیادی اشیا کی قیمتیں حد سے گزر چکی ہیں۔

گزشتہ ایک سال کے دوران، زیادہ تر اشیا کی قیمتوں میں کم از کم 30 سے 40 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بجلی کے زیادہ بلوں کی وجہ سے اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں، ایسے ماحول میں پریشان الطاف پوچھتے ہیں، کہ حکومت یہ کیسے دعویٰ کر رہی ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے؟’

لانڈری کا کاروبار کرنے والے فیصل احمد کا کہنا ہے کہ کپڑے استری کرنے کے لیے 40 روپے اور دھونے اور استری کرنے کے لیے 80 روپے وصول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، یہ فی آئٹم کی قیمت میں 10 روپے اضافی ہیں، لیکن اس کے باوجود کام حاصل کرنا مشکل ہے، ان کی دکان کا کرایہ تقریبا 16 ہزار روپے ہے، اور بجلی کا بل بھی تقریباً اتنا ہی آجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر سردیوں کے موسم میں سبزیوں کی قیمتوں میں کمی ہوجاتی ہے، لیکن اس سال سبزیاں مہنگی ہی ہیں، کیوں کہ کاشتکاروں، مڈل مین، ہول سیلرز، خوردہ فروشوں اور ڈسٹری بیوٹرز نے زندگی کی بڑھتی لاگت کو پورا کرنے کے لیے اپنے منافع میں اضافہ کیا ہے۔

قیمتوں کے حساس اشاریے

حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر کے تیسرے ہفتے میں آٹے کے 20 کلو گرام تھیلے کی قومی اوسط قیمت کم ہو کر 1580 سے 2200 روپے کے درمیان رہ گئی، جو سال کے آغاز میں 2666 سے 2960 روپے کے درمیان تھی۔

تاہم گھی کے ایک پیکٹ کی قیمت جو 470 سے 575 روپے تھی، بڑھ کر 545 سے 575 روپے ہوگئی ہے، چنے کی دال کی قیمت جنوری میں 220 سے 300 روپے فی کلو کے مقابلے میں اب 330 سے 470 روپے فی کلو ہے، ایک کلو مٹن (ہڈیوں کے ساتھ اوسط کوالٹی) کی قیمت 1550 سے 2400 روپے کے درمیان ہے اور بیف 700 سے 1300 روپے کے درمیان ہے، جب کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں مٹن 1400 سے 2200 روپے اور بیف 600 سے 1100 روپے میں دستیاب تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2024 کے پہلے ہفتے میں 10 کلو گرام گندم کے تھیلے اور ایک کلو گرام فائن آٹے کی قیمتیں بالترتیب 1247 روپے اور 156 روپے تھیں جبکہ موجودہ نرخ 809 اور 111 روپے ہیں، اگرچہ ڈیزل کی قیمت جنوری میں 276 روپے فی لیٹر سے کم ہوکر 255 روپے ہوگئی ہے، لیکن اس کا اثر سپلائی چین میں نظر نہیں آرہا ہے۔

مہنگائی میں حقیقی کمی نہیں آئی

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل کہتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں قیمتیں کم نہیں ہوئیں، اسی لیے عام آدمی کا نقطہ نظر اقتصادی ماہرین سے الگ ہے۔

پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے وضاحت کی کہ افراط زر کے اعداد و شمار میں کمی کا مطلب مہنگائی کی رفتار میں کمی ہونا ہے، اس کا مطلب اصل قیمتوں میں کمی ہونا نہیں ہے۔

چیئرمین کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن عبدالرؤف میمن نے کہا کہ اچھی فصل اور امپورٹ کی وجہ سے گندم اور آٹے کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، تاہم دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھی ہیں، حتیٰ کہ کسی ایک آئٹم کی قیمت کم ہونے کے باوجود عوام سستا آٹا نہیں خرید سکتے، مثال کے طور پر ڈھائی نمبر آٹے کی خوردہ قیمت کراچی میں 120 روپے فی کلو ہے، حالاں کہ اس کے ہول سیل نرخ 82 روپے فی کلو گرام ہیں، جب کہ شہری حکومت نے اس کی خوردہ قیمت 90 روپے مقرر کر رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فائن آٹے کی ہول سیل قیمت 90 روپے فی کلو ہے، جب کہ اس کی ریٹیل قیمت اس وقت 120 روپے فی کلو ہے، جب کہ سرکاری ریٹیل قیمت 95 روپے کلو مقرر ہے، دوسری جانب چکی آٹا 130 روپے کلو میں بیچا جا رہا ہے۔

عبدالرؤف میمن نے کہا کہ حکومت کو ریٹیل سطح پر (اس طرح کے طریقوں کا) نوٹس لینے کی ضرورت ہے، جہاں ہول سیل مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے باوجود صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، زیادہ تر صارفین آسان ہدف ہیں، کیوں کہ وہ تھوک قیمتوں میں رجحانات سے آگاہ نہیں ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریگولیٹرز عام طور پر اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے بغیر ’غیر حقیقی شرحیں‘ متعارف کرواتے ہیں، جس سے مارکیٹ میں ’قیمتوں میں بہت بڑا فرق‘ پیدا ہوتا ہے، انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ادویات کی قیمتوں کی فہرستیں جاری کرنا شروع کرے یا کم از کم انہیں وزارت صحت کی سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے کیونکہ تھوک اور خوردہ نرخوں کے درمیان قیمتوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔

شرمین سیکیورٹیز کے محمد طاہر نے کہا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) دسمبر 2024 میں سال بہ سال 4.5 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، جب کہ گزشتہ ماہ یہ 4.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا، ماہانہ بنیاد پر سی پی آئی میں 0.4 فیصد اضافے کی توقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ دسمبر 2024 میں فوڈ سیکٹر میں سال بہ سال 0.3 فیصد اضافہ ہوگا، ماہانہ بنیادوں پر فوڈ انڈیکس مستحکم رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، گندم، چکن، دالوں، ٹماٹروں اور چاول کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سست روی کا رجحان ہے، جب کہ انڈوں، کھانا پکانے کے تیل، آلو اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

شرح سود میں مزید کمی متوقع

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) جون میں ختم ہونے والے مالی سال 25 کے دوران پالیسی ریٹ میں مزید 200 بی پی ایس کی کمی کر سکتا ہے، سی پی آئی اسٹیٹ بینک کے درمیانی مدت کے ہدف کی حد کے اندر ہے، اور دسمبر 2024 میں حقیقی سود کی شرح (آر آئی آر) تقریباً 8.6 فیصد پر نمایاں طور پر برقرار ہے۔

مالی سال 25 کے دوران پالیسی ریٹ اوسطاً 14 فیصد ہو سکتا ہے، جس کی سال کے اختتام کی شرح 11 فیصد ہے، جب کہ مالی سال 25 کے لیے اوسط افراط زر 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان رہے گی، جس سے حقیقی شرح سود 4.5 فیصد برقرار رہے گی۔

یہ افراط زر کو قابو میں رکھنے اور مثبت آر آئی آر کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سفارش سے مطابقت رکھتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 29 دسمبر 2024
کارٹون : 28 دسمبر 2024