فوجی عدالتوں کی 9 مئی کے مجرمان کو سزائیں، کیا اگلی باری عمران خان کی ہے؟
سپریم کورٹ کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 حامیوں کو مختلف شرائط پر سخت سزائیں دینے کا اعلان کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جاری کردہ بیان میں ان سزاؤں کو ’انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگ میل‘ قرار دیا۔
دوسری جانب فوجی عدالتوں کی جانب سے عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کو متنازعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ اسے انصاف کے ساتھ دھوکا دہی کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس حالیہ فیصلے کے اندرونی اور بیرونی محاذ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے جس سے ملک میں جمہوری عمل اور قانون کی حکمرانی سے متعلق سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ درحقیقت عوامی نظام سے بالاتر انصاف کی فراہمی کو ملک میں آمریت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
جہاں سپریم کورٹ نے فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں پی ٹی آئی کے 85 حامیوں کے ٹرائلز میں فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی وہیں اس نے ایسے فیصلوں کو فوجی عدالتوں کی قانونی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیا ہے۔
یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ سویلینز نے فوجی ٹرائل کا سامنا کیا۔ اس کے علاوہ اعلیٰ ججز پر مشتمل نئے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دی حالانکہ فوجی عدالتوں سے متعلق ایک درخواست ابھی زیرِ التوا ہے۔ اس سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا فیصلہ سنانے کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی حمایت کی ہے؟ یہ ہمارے نظامِ عدل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ان خفیہ ٹرائلز میں قانونی طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے ملزمان کے قانونی حقوق پورے کیے گئے یا نہیں۔ یقیناً آئین کے تحت وہ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے تو کیا ایسے میں عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاسکتے ہیں؟
یہ پہلا مرحلہ تھا۔ بہت سے دیگر سیاسی قیدی بھی ہیں جو فیصلے کے لیے انتظار کی سولی پر لٹکے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر اہم رہنماؤں کے خلاف بھی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے جنہیں آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں 9 مئی کے ’منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
اگر یہ سچ ہوجاتا ہے تو یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ جب سابق وزیراعظم کو فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ بہت سے گرفتار ملزمان پر دہشتگردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر بھی 9 مئی میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اس وقت فوجی تحویل میں ہیں اور ’سیاسی سرگرمیوں میں ملوث‘ ہونے کے الزام میں کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا کررہے ہیں۔ دفاعی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں ان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے پوچھ گچھ کی اطلاعات کے بعد معاملہ مزید پیچیدہ ہوچکا ہے۔
دوسری جانب ٹرائل کی ٹائمنگ پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک متعلقہ افراد تک پیغام پہنچانا مقصود تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعے میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی سزاؤں کا اعلان اسلام آباد میں 26 نومبر کے واقعے کے بعد کیا گیا کہ جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریک ڈاؤن میں متعدد مظاہرین مارے گئے تھے۔
اس فیصلے کے بعد 9 مئی ایک بار پھر خبروں میں آچکا ہے۔ ملک گیر پُرتشدد واقعات کو 18 ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس روز ملک بھر میں جی ایچ کیو اور لاہور کورکمانڈر ہاؤس سمیت متعدد فوجی تنصیبات کو مشتعل ہجوم نے نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم اتنی اہم تنصیبات کی ناقص سیکیورٹی سے متعلق انکوائری بھی منظرعام پر نہیں آسکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ محض عمران خان کی گرفتاری کے خلاف عوامی غم و غصے کا مظاہرہ تھا یا اس دن کے واقعات عوام میں بڑھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے عکاس تھے؟ پھر یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ کچھ اعلیٰ سطح کے فوجی افسران کو بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کے سلسلے میں برطرف کر دیا گیا تھا، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا ان فوجی افسران کو فوجی عدالت کے تحت سزا سنائی گئی یا نہیں۔ اس تمام پیش رفت نے 9 مئی کے واقعے کو ایک دلچسپ رخ دیا۔
اگرچہ فوجی افسران کے فوجی ٹرائلز ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں مبینہ طور پر ملوث شہریوں پر فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ اس واقعے کو حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو مات دینے کے لیے ایک آسان سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ فوجی عدالت کے فیصلے کو مغربی ممالک کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جنہوں نے ملک میں ٹرائل کی شفافیت کے فقدان پر تنقید کی جس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کو سزا سنانے پر پاکستان کی سرزش کی ہے۔ اس سے ہمارے نظام عدل کے متعلق خدشات نے سر اٹھایا ہے۔
پاکستان کو اب شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت عائد ذمہ داریاں پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ معاہدہ کہتا ہے کہ ’کسی فرد پر لگائے گئے کسی بھی مجرمانہ الزام کے تعین میں یا فرد کے حقوق اور ذمہ داریوں کے قانون کے مطابق، ہر ملزم قانون کے تحت ایک قابل، آزاد اور غیر جانبدار ٹریبونل کے ذریعہ منصفانہ اور عوامی ٹرائل کا حقدار ہے‘۔
شاید سزاؤں سے متعلق فیصلے پر پاکستان کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک یورپی یونین کا ردعمل ہے جوکہ پاکستان کے لیے برآمدات کا سب سے اہم مرکز ہے۔ یہ خدشات ہیں کہ ان فوجی ٹرائلز سے پاکستان جی ایس پی-پلس کی سہولت سے محروم ہوسکتا ہے جس کے تحت پاکستان ڈیوٹی فری برآمدات کرتا ہے۔ یہ سہولت اسلام آباد کے انسانی حقوق کی پاسداری اور ملک میں جمہوری عمل کے وعدے سے منسلک ہے۔
بدقسمتی سے حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں متنازعہ سیاست کے اس کھیل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔