بشارالاسد کی اہلیہ اسما اسد دوبارہ کینسر میں مبتلا، بچنے کے امکانات کم رہ گئے
شام کے سابق آمر بشارالاسد کی اہلیہ اسما اسد دوبارہ کینسر میں مبتلا ہوگئیں، خون کے سرطان میں مبتلا ہونے کے سبب ان کی طبیعت شدید خراب ہے اور ڈاکٹرز نے ان کے بچنے کا 50 فیصد امکان ظاہر کیا ہے۔
برطانوی جریدے ’ٹیلی گراف‘ کی رپورٹ کے مطابق شام کے معزول صدر بشار الاسد کی برطانوی نژاد اہلیہ اسما اسد کو انفیکشن سے بچانے کے لیے تنہائی میں رکھا گیا ہے، اسد فیملی سے رابطے میں رہنے والے ذرائع کا کہنا ہےکہ اسما اسد کے والد فواز اخراص ان کی تیمارداری کے لیے روس کے دارالحکومت ماسکو میں موجود ہیں تاہم وہ دل گرفتہ ہیں۔
رواں سال مئی میں شام کے صدارتی محل نے اعلان کیا تھا کہ اس وقت کی خاتون اول خون کے سرطان میں مبتلا ہیں۔
یاد رہے کہ اسما اسد اس سے قبل چھاتی کے سرطان میں میں مبتلا ہوچکی ہیں اور انہوں نے 2019 میں کینسر مکمل طور پر چھٹکارا پانے کا اعلان کیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ رواں میں ماہ کریملن نے بشار الاسد کو شام چھوڑنے پر قائل کیا تو 49 سالہ سابق خاتون اول علاج کے غرض سے پہلے ہی ماسکو پہنچ چکی تھیں۔
اسما اسد کے کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یہ اطلاعات زیرگردش ہیں کہ وہ ماسکو میں خوش نہیں ہیں اور اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہیں، اسد فیملی نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم کریملن نے طلاق کی افواہوں کی تردید کی ہے۔
ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق روسی سفارتکاروں سے بریفنگ لینے والے ترک صحافیوں کو ان خبروں کا ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔
اسد خاندان کے نمائندے سے بات چیت کرنے والے ایک ذریعے نے اخبار کو بتایا کہ ’اسما مر رہی ہیں، وہ (اپنی حالت کی وجہ سے) کسی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں نہیں رہ سکتیں۔
ماسکو میں اس خاندان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ایک اور ذرائع نے کہا کہ ’جب لیوکیمیا (خون کا سرطان) واپس آتا ہے، تو یہ خوفناک ہوتا ہے، پچھلے کچھ ہفتوں میں ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے کہ بچنے کا 50 فیصد امکان ہے‘۔
لندن سے تعلق رکھنے والے کارڈیالوجسٹ اخراس تقریباً نصف سال سے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں تھیں اور اب ماسکو میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ ترک میڈیا نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا تھا کہ اسما اسد نے روس کی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ماسکو چھوڑنے کی اجازت طلب کرلی ہے جبکہ روسی حکام کی جانب سے سابق خاتون اول کی درخواست پر غور کا سلسلہ جاری ہے اور تاحال اس کا نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
گو کہ بشار الاسد کی پناہ کی درخواست منظور کرلی گئی ہے تاہم مبینہ طور پر روسی حکام کی جانب سے انہیں سخت پابندیوں کا سامنا ہے، بشار الاسد کو سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ وہ نہ ماسکو چھوڑیں اور نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیں، ان پابندیوں نے بشارالاسد کی حکمت عملی کی گنجائش کو شدید طور پر محدود کر دیا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق روسی حکام نے بشار الاسد کی اپنے اثاثوں اور دولت تک رسائی کو بھی منجمد کردیا ہے، اس اقدام کو اسد خاندان کی معاشی طاقت اور مستقل کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے حوالے سے بھی اہم قرار دیا جارہا ہے، اس فیصلے نے بشار الاسد کے اقدامات کو یکسر طور پر روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
بشارالاسد کے بھائی ماہر الاسد کو اپنی پناہ کی درخواست پر تاحال منظوری نہیں ملی ہے، مبینہ طور پر وہ اور ان کا خاندان گھر میں نظربند ہے اور ان کی درخواست زیرغور ہے۔
کریملین نے ترک میڈیا کی رپورٹس کو مسترد کردیا
دریں اثنا کریملین نے پیر کو ترک میڈیا کی ان رپورٹس کو مسترد کردیا تھا کہ اسما اسد اپنے شوہر سے طلاق لے کر روس چھوڑنا چاہتی ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ترک میڈیا کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا تھا کہ بشار الاسد کو ماسکو تک محدود کردیا گیا ہے اور ان کے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ 8 دسمبر کو شام کے دارالحکومت دمشق پر حزب اختلاف کے جنگجوؤں کے قبضے کے بعد معزول صدر بشارالاسد کے طویل مدتی اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا اور وہ روس فرار ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ شام میں الاسد خاندان 50 سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور فوجی والد سے وراثت میں ملا جو 1971 سے لے کر جون 2000 میں اپنی موت تک برسر اقتدار رہے۔
الجزیرہ کے مطابق جولائی 2000، طب کے سابق طالبعلم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر اِن چیف بن گئے۔
11 سال بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئےسڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے سخت کریک ڈاؤن کیا۔
جیسے جیسے مزید شامی مظاہروں میں شامل ہوتے گئے، ویسے ویسے مخالفین کی اکثریت کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے والے صدر بشار الاسد طاقت کا استعمال بڑھاتے گئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
اس کے بعد کے برسوں میں لاکھوں شامی جاں بحق ہوئے اور بشار الاسد پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
جنگ کے سائے میں انہوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں انتخابات کرائے جنہیں بہت سے لوگوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔
جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پر قائم رہے۔