ماسکو راس نہیں آیا! بشار الاسد کی اہلیہ نے طلاق مانگ لی
اقتدار کیا چھوٹا شام کے معزول صدر بشار الاسد کی اہلیہ بھی ان کا ساتھ چھوڑنے کے لیے پَر تولنے لگیں، اسما اسد نے ماسکو میں اپنے حالات زندگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لندن جانے کے لیے سابق صدر سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔
ترک ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق اسما اسد نے روس کی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ماسکو چھوڑنے کی اجازت طلب کرلی ہے جبکہ روسی حکام کی جانب سے سابق خاتون اول کی درخواست پر غور کا سلسلہ جاری ہے اور تاحال اس کا نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
گوکہ بشار الاسد کی پناہ کی درخواست منظور کرلی گئی ہے تاہم مبینہ طور پر روسی حکام کی جانب سے انہیں سخت پابندیوں کا سامنا ہے، بشار الاسد کو سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ وہ نہ ماسکو چھوڑیں اور نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیں، ان پابندیوں نے بشارالاسد کی حکمت عملی کی گنجائش کو شدید طور پر محدود کر دیا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق روسی حکام نے بشار الاسد کی اپنے اثاثوں اور دولت تک رسائی کو بھی منجمد کردیا ہے، اس اقدام کو اسد خاندان کی معاشی طاقت اور مستقل کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے حوالے سے بھی اہم قرار دیا جارہا ہے، اس فیصلے نے بشار الاسد کے اقدامات کو یکسر طور پر روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
بشارالاسد کے بھائی ماہر الاسد کو اپنی پناہ کی درخواست پر تاحال منظوری نہیں ملی ہے، مبینہ طور پر وہ اور ان کا خاندان گھر میں نظربند ہے اور ان کی درخواست زیرغور ہے۔
اس صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسد خاندان کو کس قسم کے سیاسی اور ذاتی مسائل کا سامنا ہے، اگر اسما اسد کی لندن جانے کی درخواست منظور ہوجاتی ہے تو روس میں اسد خاندان کی پوزیشن مزید کمزور ہوجائے گی۔
کریملین نے ترک میڈیا کی رپورٹس کو مسترد کردیا
دریں اثنا، کریملین نے پیر کو ترک میڈیا کی ان رپورٹس کو مسترد کردیا ہے کہ اسما اسد اپنے شوہر سے طلاق لے کر روس چھوڑنا چاہتی ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ترک میڈیا کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا ہے کہ بشار الاسد کو ماسکو تک محدود کردیا گیا ہے اور ان کے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں۔
کانفرنس کال کے دوران جب دمتری پیسکوف سے پوچھا گیا کہ کیا یہ رپورٹس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں وہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
یاد رہے کہ 8 دسمبر کو شام کے دارالحکومت دمشق پر حزب اختلاف کے جنگجوؤں کے قبضے کے بعد معزول صدر بشارالاسد کے طویل مدتی اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا اور وہ روس فرار ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ شام میں الاسد خاندان 50 سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور فوجی والد سے وراثت میں ملا جو 1971 سے لے کر جون 2000 میں اپنی موت تک برسر اقتدار رہے۔
الجزیرہ کے مطابق جولائی 2000، طب کے سابق طالبعلم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر اِن چیف بن گئے۔
11 سال بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئےسڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے سخت کریک ڈاؤن کیا۔
جیسے جیسے مزید شامی مظاہروں میں شامل ہوتے گئے، ویسے ویسے مخالفین کی اکثریت کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے والے صدر بشار الاسد طاقت کا استعمال بڑھاتے گئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
اس کے بعد کے برسوں میں لاکھوں شامی جاں بحق ہوئے اور بشار الاسد پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
جنگ کے سائے میں انہوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں انتخابات کرائے جنہیں بہت سے لوگوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔
جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پر قائم رہے۔
13 سالہ خانہ جنگی کے دوران کب کیا ہوا؟
مارچ 2011: دمشق اور درعا میں پرامن مظاہرے شروع ہوئے۔ الاسد حکومت نے اس کے جواب میں پرتشدد کریک ڈاؤن کیا جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت شروع ہوئی۔
جولائی 2012: حلب کی لڑائی کے ساتھ تنازع شدت اختیار کر گیا، جس میں باغی افواج نے شہر کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیاتاہم شامی فوج نے 4 سال بعد اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
اگست 2013: مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں سیکڑوں شہری جاں بحق ہوئے، اس حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور شام اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔
جون 2014: داعش نے بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد شام اور عراق میں خلافت کا اعلان کیا۔ رقہ شام میں ان کا اصل دارالحکومت بن گیا ہے اور ان کی حکمرانی 2019 تک جاری رہے گی۔ ستمبر 2015: روس نے الاسد کی حمایت میں براہ راست فوجی مداخلت کا آغاز کیا،روسی فضائی حملوں نے سرکاری افواج کے حق میں رخ موڑنے میں مدد کی۔
اپریل 2017: خان شیخون میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جواب میں امریکا نے شامی حکومت کے اہداف پر میزائل حملے کیے، بشارالاسد کی افواج کے خلاف یہ واشنگٹن کی پہلی براہ راست فوجی کارروائی تھی۔
نومبر 2024: گزشتہ 4 برسوں کے دوران یہ تنازع بڑی حد تک منجمد رہا، یہاں تک کہ گزشتہ ہفتے باغی مسلح گروہوں نے ادلب سے پیش قدم کا آغاز کیا اور حلب کے بعدپے در پے کئی اہم شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے گزشتہ دمشق کو فتح کرلیا۔
بشارالاسد کی زندگی پر ایک نظر
59 سالہ بشار الاسد نے 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد اقتدار سنبھالا تھا، دمشق میں پیدا ہونے والے بشار الاسد نے دمشق کے میڈیکل اسکول سے گریجویشن کیا اور آنکھوں کے علاج میں مہارت حاصل کرنے کے لیے لندن میں زیر تعلیم تھے تاہم اپنے بھائی کی موت کے بعد واپس شام آ گئے۔
توقع کی جا رہی تھی کہ ان کے بڑے بھائی باسل الاسد اپنے والد کی جگہ ملک کے سربراہ بنیں گے لیکن ایک کار حادثے میں ان کی موت ہو گئی تھی۔
واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں، دارالحکومت دمشق میں باغیوں کے داخل ہونے کے بعد ہزاروں افراد نے مرکزی چوک میں جشن مناتے ہوئے آزادی کے نعرے لگائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شامی فوج کی کمان نے افسران کو مطلع کیا ہے کہ باغیوں کے حملے کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔
شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ دمشق ’اب اسد سے آزاد ہے‘، فوج کے دو سینئر افسران نے رائٹرز کو بتایا کہ اس سے قبل بشار الاسد اتوار کے روز دمشق سے کسی نامعلوم مقام کے لیے روانہ ہوگئے تھے کیونکہ باغیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دارالحکومت میں داخل ہوگئے ہیں اور فوج کی تعیناتی کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔