’کوفیہ‘ کی پینٹ پہننے پر ایچ ایس وائے کو تنقید کا سامنا
شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر حسین شہریار یاسین المعروف ’ایس ایچ وائے‘ کو فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے اسکارف ’کوفیہ‘ کی پینٹ پہننے پر تنقید کا سامنا ہے۔
ایچ ایس وائے عالمی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر اور کلاتھنگ برانڈ ہیں، تاہم انہوں نے مذکورہ ’کوفیہ پینٹ‘ کو اپنے برانڈ میں متعارف نہیں کرایا۔
یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ایچ ایس وائے نے ’کوفیہ پینٹ‘ کو متعارف کرایا ہے یا پھر انہوں نے خود اپنے لیے ایسی پینٹ تیار کی۔
ایچ ایس وائے نے ’کوفیہ‘ سے بنی پینٹ یا ٹراؤزر کی ویڈیو اپنے ذاتی انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی، جس میں انہیں سیاہ شرٹ اور سیاہ کیپ کے ساتھ ’کوفیہ‘ کے ٹراؤزر کے ساتھ دیکھا گیا۔
انہوں نے مختصر ویڈیو کو کیپشن کے بغیر شیئر کیا، ساتھ ہی انہوں نے کمنٹس سیکشن کو بھی سب کے لیے بند کیا۔
ایچ ایس وائے کی ’کوفیہ‘ سے بنی پینٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جہاں صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے فیشن ڈیزائنر کو آڑے ہاتھوں لیا۔
زیادہ تر صارفین نے ایچ ایس وائے کو ’کوفیہ‘ سے بنی پینٹ پہننے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں تجویز دی کہ وہ مذکورہ ثقافتی کپڑے کی شرٹ پہن سکتے ہیں لیکن پینٹ یا ٹراؤزر پہننا عرب ثقافت کی توہین ہوگی۔
سوشل میڈیا صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے لکھا کہ ’کوفیہ‘ کو جہاں پورے عرب ممالک میں ثقافتی کپڑے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہیں اسے فلسطین میں مزاحمت کی علامت کی حیثیت حاصل ہے اور دنیا بھر کے لوگ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر ’کوفیہ‘ کے اسکارف کو گلے میں سجاتے اور سر پر باندھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 1930 کی دہائی کی عرب بغاوت کے دوران سیاہ اور سفید ’کوفیہ‘ فلسطینی قوم پرستی کی علامت بن گیا تھا۔
فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ کے دوران باغیوں اور انقلابیوں نے اپنی شناخت چھپانے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے چہروں پر ’کوفیہ‘ لپیٹ لیا تھا۔
بعدازاں برطانیہ نے اس اسکارف کے پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس کے بعد ملک گیر احتجاج کے دوران فلسطینیوں نے ’کوفیہ‘ پہننا شروع کیا جس سے برطانوی حکام کے لیے باغیوں کی شناخت کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔
1960 کی دہائی کے دوران فلسطینی مزاحمتی تحریک کے آغاز اور فلسطین کے سابق صدر یاسر عرفات کے اپنانے کے ساتھ کوفیہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔
یاسر عرفات کی جانب سے اسکارف کو پہننے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اسے صرف اپنے کندھوں پر رکھتے اور اپنے سر کے گرد لپیٹ لیتے تھے۔