پشاورچرچ پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 81 ہو گئی
پشاور: گزشتہ روز پشاور کے ایک چرچ میں دو خود کش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 81 ہو گئی۔
پشاور کے مرکزی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈاکٹر ارشد جاوید نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کو ہلاکتوں کی تعداد 81 ہو گئی، جن میں 37 خواتین بھی شامل ہیں۔ ِ
ڈان اخبار سے
پشاور: پاکستان کے صوبہ خیبر پختوتنخوا کے دارالحکومت پشاور میں کل بروز اتوار کو ایک چراچ کے احاطے میں ہوئے دو خوفناک بم دھماکوں نے اس شہر کو ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا۔
خودکش بم دھماکوں سے 78 افراد کی ہلاکت پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں، جن میں اس بھیانک خونریزی کی شدید مذمّت کی گئی۔
شہر کے گنجان آباد علاقے کوہاٹی گیٹ میں واقع مسیحی برادری کی ایک مشہور عبادت گاہ پر یہ المناک واقعہ پیش آیا جس نے شہر کی فضا کو سوگوار کردیا۔
جیسے ہی دوپہر کے بارہ بجے دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو چرچ کے احاطے میں دھماکوں سے اُڑا لیا، جس کے نتیجے میں 78 افراد ہلاک اور تقریباً 120 کے قریب زخمی ہوئے۔
ہلاک ہونے والوں میں 34 خواتین اور سات بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 17 زخمیوں کی حالت تشیوشناک بتائی جارہی ہے۔
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق پاکستانی طالبان کے ایک گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
بین الااقوامی میڈیا رپوٹس میں طالبان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ اس وقت تک غیر مسلموں کو نشانہ بنائیں گے جب تک قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے بند نہیں ہوجاتے۔
پشاور شہر جو پہلے بھی شدت پسند حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے، لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شہر میں واقع مسیحی برادری کی ایک عبادت گاہ کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
تاہم پاکستان مسیحی برادری پر کل ہونے والا حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی چند خودکش حملے 2002ء میں اسلام آباد اور ٹیکسلا کے گرجا گھروں پر ہوچکے ہیں۔ گزشتہ سالوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اندھادھند اضافہ ہوا ہے، تاہم ان کے حملوں کا نشانہ بننے والوں میں عام شہری اور ریاستی تنصیبات شامل ہیں، چنانچہ گرجا گھر پر یہ حملہ حیرت کا باعث بنا ہے۔
شام تک جب عام لوگوں کے غم و غصے کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا، تو حکومتی جماعتوں کی جانب جاری کیے جانے والے مذمتی بیانات سے یہ اندازہ ہوگیا کہ سیاستدانوں کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہے۔
شام تک پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پشاور پہنچے جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے لندن سے اس معاملے پر بیان جاری کیا۔ ان کے بیانات بظاہر حکومت کی طالبان کے لیے نئی حکومتی پالیسی کو واضح کررہے تھے۔
پشاور دھماکوں میں زخمی ہونے والے افراد کو شہر کے تین بڑے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جن میں لیڈی ریڈنگ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس شامل ہے۔
سٹی سرکل کے پولیس سپرینٹڈنٹ اسماعیل خٹک نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خودکش حملہ آور گرجا گھر کے پچھلے گیٹ سے داخل ہوئے جہاں پر تعینات پولیس اہلکار نے ان کو روکنے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا، جس سے پولیس ہلاک کار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پہلے حملہ آوروں نے دستی بم کا استعمال کیا اور بعد میں چرچ کے احاطے میں داخل ہو کر اپنے آپ کو اڑا لیا۔
اسماعیل خٹک کا مزید کہنا تھا کہ یہ ابھی ابتدائی پولیس رپورٹ ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
بم ڈسپوزل یونٹ کے چیف اے آئی جی شفقت ملک کا کہنا تھا کہ دونوں خود کش حملہ آوروں میں اس ہر ایک کے پاس چھ چھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد تھا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکوں کی جگہ سے خودکش حملہ آور کا سر برآمد ہوا ہے جس کو فارنزک ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔
ایک اور تفتیشی اہلکار جنہوں نے جائے وقوعہ سے شواہد جمع کیے تھے، ان کا کہنا ہے کہ تین گولیوں کے خول بھی موقع سے برآمد ہوئے ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حملہ آوروں نے ایک یا ایک سے زائد پستول سے فائرنگ بھی کی تھی۔
فلپ نامی ایک عینی شاہد نے ڈان کو بتایا کہ عام طور پر اتوار کے روز چھ سو سے ایک اہزار کے قریب افراد اس گرجا گھر میں عبادت کرنے آتے ہیں، لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ پروگرام صبح گیارہ بجکر دس منٹ پر ختم ہوگیا تھا اور اکثر لوگ یہاں سے جا چکے تھے۔
فلپ کے والد سیمسن انور نے وضاحت کی کہ عام طور پر ہر اتوار پولیس کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی جاتی تھی، لیکن جس وقت یہ واقعہ ہوا چرچ کے اطراف سیکیورٹی موجود نہیں تھی۔
خبر رساں ادارے:
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق اس واقعہ کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے اور ان کا کہنا کہ انہوں نے ایک نیا گروہ تشکیل دیا ہے جس کا نام جنودالحفصہ ہے اور یہ گروپ طالبان اور القاعدہ پر ہونے والے امریکی ڈورن حملوں کا بدلہ لے گا۔
اس گروپ کے ترجمان احمد مروت نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ پشاور میں چرچ پر حملہ انہوں نے کیا اور وہ اس وقت تک غیر مسلم اور غیرملکیوں کو نشانہ بنائں گے جب تک قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک اور عالمی خبررساں ادارے رائٹرز نے احمد مروت کو پاکستانی طالبان کے ایک گروپ جنداللہ سے منسلک بتایا، اور بتایا کہ ان کے بقول مسیحی برادری اسلام کے دشمن ہیں، لہٰذا ہم پاکستان کی سرزمین پر موجود غیر مسلموں کو مستقبل میں بھی نشانہ بنائیں گے۔
دوسری جانب پشاور میں چرچ پر ہوئے دو خودکش بم حملوں کی وزیراعظم نواز شریف نے مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے زیاں پر دکھ کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی اس طرح کی کارروائیاں مظالم اور غیر انسانی فعال کی عکاسی کرتی ہیں۔
انہوں نے مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی اور اور ان کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دُعا کی۔
خیال رہے کہ کوہاٹی گیٹ کا علاقہ پشاور کے حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہاں تین چرچ اور متعدد امام بارگاہیں موجود ہیں۔
پاکستان میں کیتھولک بشپ کانفرنس نے واقعے کے شدید مذمت کرتے ہوئے اگلے تین دن روز کے لیے ملک بھر میں مسیحی انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں کو بطور سوگ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے سوگ کا اعلان
وفاقی حکومت نے پشاور میں چرچ پر حملے اور انسانی جانوں کے زیاں پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ زخمیوں کو اندرون ملک اور ضرورت پڑنے پر بیرون ملک علاج کی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں گی.
اتوار کی شام وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان وزیراعظم کی ہدایت پر پشاور پہنچے۔ انہوں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور ان کی مزاج پرسی کی۔ اس موقع پر ہسپتال انتظامیہ نے انہیں متاثرین کے علاج پر بریفنگ دی۔
اس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔
تبصرے (12) بند ہیں