دو ماہ میں کچھ ثابت نہ ہو تو بندے پر پستول یا کوئی اور چیز ڈال دیتے ہیں، پشاور ہائی کورٹ
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اعجاز انور نے کہا ہے کہ یہ پہلے بندے کو اٹھاتے ہیں، دو تین مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں اور جب کچھ نہیں نکلتا تو پھر ان کے خلاف پستول یا کوئی اور چیز ڈال دیتے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق پی ایچ ڈی طالب علم اسد علی خان کی گمشدگی کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس اعجاز انور نے کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل بادشاہ ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ یکم اکتوبر سے پی ایچ ڈی طالب علم کو اٹھایا ہے، ان کے ایک بھائی وکیل ہیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سی ٹی ڈی والے پہلے پستول مانگ رہے تھے اب کہتے ہیں کہ ہینڈ گرنیڈ مانگ رہے ہیں، 12 دن بعد رابطہ کیا کہ پستول دے دیں ہم نے دی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم کو اٹھایا جانا حکومت کی بے ہسی ہے، یہ پہلے بندے کو اٹھاتے ہیں دو تین مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں اور جب کچھ نہیں نکلتا تو پھر ان کے خلاف پستول یا کوئی اور چیز ڈال دیتے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ہم کہتے ہیں کہ گرینیڈ ڈال دیں لیکن ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ لوگ جب آجاتے ہیں تو پھر کوئی عدالت میں بیان نہیں دیتا کہ کس نے اٹھایا تھا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت ایس پی کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو بلالیں وہ خود بتائے گیں کہ ملزم کہاں پر ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ پولیس بھی مجبور ہوتی ہے، یہ نہیں بتاتے، یہاں ایک کیس میں کیمرے میں نظر آرہا تھا کہ بندے کو اٹھایا ہے لیکن اس کو بھی پولیس پھر نہیں مان رہی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔