18 ویں ترمیم سے زیادہ فنڈز صوبوں کے پاس چلے گئے، این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کرنا ہوگی، سیکریٹری خزانہ
وفاقی سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کہا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد زیادہ فنڈز صوبوں کے پاس چلے گئے، قومی مالیاتی کمیشن ( این ایف سی) ایوارڈ پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
ڈان نیوز کے مطابق ان خیالات کا اظہار سیکریٹری خزانہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کیا، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں ہوا۔
اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی) پر صوبوں کے تحفظات کب دور کیے جائیں گے؟۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں زیادہ ترقیاتی فنڈز خرچ کرکے شدت پسندی پر قابو پایا جاسکتا ہے، خیبرپختونخوا کو اضافی فنڈز کی ضرورت ہے۔
سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے اجلاس کو بریفنگ میں بتایا کہ وزارت خزانہ کے پاس جتنے فنڈز ہیں ان میں سے ہی رقم صوبوں میں تقسیم ہوگی، اگر ایک صوبے میں آبادی یا فارمولا کے اعداد و شمار تبدیل ہو جائیں تو نیا معاہدہ کرنا پڑے گا، اس وقت کی حکومت کو اس وقت این ایف سی میں تبدیلی کرنی چاہیے تھی، میرا موقف یے کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرنی ہوگی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ابھی تک ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر عمل درآمد جاری ہے، فاٹا اور پاٹا کی مراعات ختم کرنا چاہتے تھے، لیکن حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا، آئی ایم ایف نے این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کی کوئی شرائط نہیں عائد کیں، این ایف سی میں تبدیلی کے لیے صوبوں کے ساتھ مشاورت ضروری ہے۔
امداد اللہ بوسال نے کہا کہ صوبوں کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں حصہ ایک فیصد ہے، صوبوں سے اخراجات کم کرنے کی درخواست کی ہے، صوبوں سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) اورپبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) اخراجات شیئر کرنے کا کہا ہے، صوبوں سے مشترکہ فنانسنگ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ میڈیا پر خبریں ہیں کہ حکومت نے بہت مہنگا قرض لیا ہے، کیا پاکستان نے صرف کمرشل قرض ہی ادا کرنا ہے؟
سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ ہم نے فی الحال کوئی مہنگا قرض لیا ہی نہیں، جب بینکوں سے قرض لیں گے تو سب کے سامنے لیں گے، اس وقت ہمارا بیرونی خلا کور ہوا ہے، ہم مزید قرض اپنی شرائط پر لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 6 ماہ کا کائیبور ریٹ بھی 12 فیصد ہے، اس پر شبلی فراز نے کہا کہ اگر صورتحال اتنی ہی بہتر ہے تو عالمی مارکیٹ کا رخ کیوں نہیں کر رہے؟ سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ ٹرپل سی ریٹنگ کے ساتھ بانڈ جاری نہیں کرسکتے، اب قرض ادائیگیوں میں مشکلات بھی نہیں ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ملازمین کوریٹائر کرنے کی عمر 55 سال کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کہا کہ پاکستان کسٹمز میں بھرتیاں میرٹ پر کی گئی ہیں، ہم نے گریڈ ایک سے 4 تک کوئی بھرتی نہیں کی، گریڈ 5 اور اوپر کی بھرتیاں میرٹ پر کی ہیں۔
صدر زرعی ترقیاتی بینک نے اجلاس کو بتایا کہ پنجاب میں 124 ارب روپے اور سندھ میں 23 ارب روپے کا زرعی قرض دیا گیا ہے، رواں سال خیبر پختونخواہ کو 5 ارب 30 کروڑ روپے کا قرض دیا گیا یے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ آپ خیبر پختونخوا کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، شبلی فراز نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک چھوٹے کسانوں کو مدد دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس پر صدر زرعی ترقیاتی بینک نے کہا کہ ہم زیر کاشت رقبے کی بنیاد پر قرض فراہم کرتے ہیں، پنجاب کا زیادہ رقبہ زیر کاشت تھا، اس لیے وہاں زیادہ قرض دیا گیا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ زرعی قرض کے معاملے پر اسٹیٹ بینک کمیٹی کو بریفنگ دے گا، زرعی قرض دینے کے طریقہ کار سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا ایکسٹرنل فنانسنگ گیپ کورڈ ہے، ہم مزید قرض اپنی شرائط پر لیں گے، ٹریپل سی ریٹنگ کے ساتھ بانڈ جاری نہیں کر سکتے، ہم سنگل بی ریٹنگ کا انتظار کر رہے ہیں، پھر کیپیٹل مارکیٹ میں جائیں گے البتہ چینی بانڈ مارکیٹ میں بانڈا بانڈ جاری کیا جائے گا، اب قرض ادائیگیوں میں بھی مشکلات نہیں ہیں۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان نے قرض مختلف مدت میں لیے ہیں جس کے باعث ان کی شرح سود مختلف ہے سوفر سب کے لیے ایک ہوتا ہے تاہم مارجن مختلف ہوتا ہے، ہم نے فلحال کوئی مہنگا قرض لیا ہی نہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت کی حکومت کو اس وقت این ایف سی میں تبدیلی کرنا چاہیے تھی، وزارت خزانہ کے پاس تو جتنے فنڈز ہیں ان میں سے ہی تقسیم ہوگی۔