مدارس پر فضل الرحمٰن سمیت سب کیلئے قابل قبول حل نکالنے کی کوشش کریں گے، عطا اللہ تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مدارس سے متعلق بل پیچیدگیوں کےباعث قانونی شکل اختیار نہیں کرسکا، مدارس پر فضل الرحمٰن سمیت سب کے لیے قابل قبول حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔
اسلام آباد میں مدارس کی رجسٹریشن و اصلاحات سے متعلق علما و مشائخ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور ان کی رجسٹریشن کے لیے وسیع ترمشاورت کے بعد نظام وضع کیا گیا، اس نظام کے تحت 18ہزار مدارس نے رجسٹریشن کرائی۔
انہوں نے کہاکہ جب بھی کوئی قانون بنتا ہے، اس کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ ہوتا ہے، جب مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کیا گیا تو اس کے فوائد آئے، اسی وزارت تعلیم کے تحت ایچ ای سی اور تمام جامعات ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مدارس کی رجسٹریشن میں علمائے کرام کی کاوشیں شامل ہیں، مدارس کی رجسٹریشن کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے، خوشی ہوتی ہے کہ مدارس کے طلبا ڈاکٹر، انجینئر بن رہے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت علمائے کرام کی تجاویز پر مشاورت کرے گی، مولانا فضل الرحمان قابل احترام ہیں، ان کی تجاویز بھی سنیں گے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ملک میں مدارس کی موجودگی قوم کے لیے حوصلے کا باعث ہے،قوم کا بہت بڑا بوجھ مدارس نے اٹھا رکھا ہے، رجسٹریشن کا مقصد مدارس کو کنٹرول کرنا نہیں۔
مدارس کا معاملہ مذہبی ہے، اسے اکھاڑا نہ بنایا جائے، سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ راغب نعیمی نے کہا کہ مدارس کا معاملہ مذہبی ہے، اسے اکھاڑا نہ بنایا جائے، اب مدارس کے نظام کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں، ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم نے بہت سے مسائل حل کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کی ڈگری ایم اے کے مساوی دی جاتی ہے، اسے بی ایس کا درجہ دیا جائے۔
مدارس کا موجودہ نظام برقرار رکھا جائے، طاہر اشرفی
اس موقع پر علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ وفاقی وزرا سے درخواست ہے کہ موجودہ نظم کو برقرار رکھا جائے اور مدارس کو وزارت تعلیم سے ہی منسلک رکھا جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مدارس سے متعلق کسی بھی قانون سازی میں تمام مدارس کے بورڈز کو اعتماد میں لیا جائے۔
طاہر اشرفی نے مزید کہا کہ جو معاہدہ ہوا تھا اس پر ہمارے نہیں ان کے اکابرین کے دستخط ہیں، مدارس میں لاکھوں طلبا ہیں، قوت سب کے پاس ہے، ہم ٹکراؤ نہیں چاہتے، کیا آئے روز نئے قوانین بنیں گے؟ انہوں نے کہاکہ ہر 5 سال بعد قانون بنے گا تو مدارس کے طلبہ متاثر ہوں گے۔
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز پشاور میں اسرائیل مردہ باد کانفرنس سے خطاب میں کارکنوں مدارس کے حوالے سے بل پر حکومتی وعدہ خلاف پر اسلام آباد کی جانب مارچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت میں ایک بل پر بات چیت کی تھی اور حکومت نے اس کا مسودہ تیار کیا تھا جس پر دینی مدارس نے اتفاق کیا، بل کو اسمبلی میں پیش کیا گیا جس پر کچھ قوتوں نے مداخلت کی اور اسے رکوا دیا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا تھا آئینی ترمیم کے وقت کہا گیا کہ ایک چیز جو طے ہو چکی ہے اس کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کیا جائے، کراچی میں چیئرمین پیپلز پارٹی سے ملاقات میں آئینی ترمیم اور دینی مدارس کے بل پر 5 گھنٹے بات چیت کی جس کے بعد ہمارا اتفاق رائے ہوگیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ (ن) نوازشریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بھی بات چیت کی اور ہمارے درمیان اتفاق رائے طے پایا، پارلیمانی ارکان سے بھی ساری تفصیلات شیئر کی اور انہوں نے بھی اس بل پر حامی بھری۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھاکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے بل پر ووٹ دیا اور اس کو منظور کرایا، تمام حکومتی اتحادیوں کی اتفاق رائے سے یہ بل قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا، دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد سب چیزوں پر دستخط کیے گئے لیکن مدارس کے بل پر دستخط کیوں نہیں کیے گئے؟
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا بل کی تیاری اور منظوری میں شریک ہونے کے باوجود اس پر دستخط نہ کرنا دھوکہ دہی اور فراڈ ہے۔