وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات ایک ہزار ارب روپے سے متجاوز، اصلاحات کے نفاذ پر غور
پاکستان کی وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات ایک ہزار ارب روپے سے بڑھ چکے ہیں، سول اداروں کے پنشنرز کو 260 ارب روپے جبکہ مسلح افواج کے پنشنرز کو 750 ارب روپے کی پنشن ادا کی جارہی ہے۔
پنشن کی شدت اس کی شرح نمو جتنی حیران کن ہے، جو آمدنی میں اضافے سے کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اسے جامع اصلاحات کے بغیر ناقابل برداشت بنا دیا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت بیوروکریسی کو چلانے کی لاگت سے زیادہ پنشن پر خرچ کر رہی ہے۔
ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں نے پنشن بل میں کٹوتی کے لیے اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں تازہ ترین تجویز ریٹائرمنٹ کی عمر کو 60 سے کم کرکے 55 سال کرنے کی ہے۔
گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ایک کثیر الجہتی قرض دینے والے ادارے نے حکومت کو وسیع تر پنشن اصلاحات کے حصے کے طور پر اپنے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
رپورٹ میں عہدیداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی کرنے کے اقدام پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو ہر سال 50 ارب روپے کی بچت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت اس تجویز پر غور کر رہی ہے، جس نے سالانہ پنشن بجٹ کو کم کرنے کے لیے پچھلے سال ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 62 سال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
’بے کار آئیڈیا‘
اگر اس طرح کی پالیسی نافذ کی جاتی ہے تو یہ سرکاری شعبے کے پنشن اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے متوقع عمر میں اضافے کے مطابق ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے عالمی رجحان کے خلاف ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے سویلین ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرکے 55 سال کرنا ایک برا خیال ہے، اگر اس کا مقصد پنشن کی بڑھتی ہوئی ادائیگی کو کم کرنا اور اس کی تیز رفتار ترقی کو سست کرنا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے پہلے، اس اقدام سے پیشگی اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوگا، جو حکومت کو اس وقت ادا کرنا ہوگا جب کوئی ملازم ریٹائرمنٹ پر پہنچ جاتا ہے۔
موجودہ پنشن نظام ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پنشن کا 35 فیصد تک ایک ساتھ ادائیگی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
پاکستان میں پنشن کے بحران پر وسیع پیمانے پر کام کرنے والے عالمی ترقیاتی ماہر حسن خاور کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اس اقدام کے نتیجے میں ہونے والی واحد بچت یہ ہوگی کہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کی صورت میں پنشن کا حساب لگانے کے لیے استعمال ہونے والی آخری تنخواہ کم ہوگی اور طویل مدتی فوائد نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔
حسن خاور نے بتایا کہ ملازمین 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو رہے ہیں، اس لیے حکومت کو اضافی 5 سال کے لیے پنشن ادا کرنا پڑے گی، اس کے علاوہ نعم البدل کی شکل میں پیشگی پنشن کی ادائیگیوں میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا۔
ان کا اندازہ ہے کہ اگر ریٹائرمنٹ کی عمر کم کر کے 55 سال کر دی جاتی ہے تو عام شہریوں کو پنشن کی پیشگی ادائیگی 5 سال میں 260 ارب روپے کے موجودہ بجٹ سے بڑھ کر ایک کھرب روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
حسن خاور نے مزید کہا کہ نعم البدل کی لاگت پہلے ہی سالانہ پنشن بجٹ کا نصف ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے سے اس بجٹ میں مزید اضافہ ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی کم عمر کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی جانب سے قائم کردہ پنشن ریفارمز کمیشن کی قیادت کی تھی، کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھاکر 62 سال کرنے کے کی مخالفت کی اور اس کے بجائے مستقبل میں بھرتیوں کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم اور پنشن کے حساب میں پیرامیٹرک تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تھا۔
وہ مسلح افواج کی مثال دیتے ہیں، جہاں سالانہ پنشن بل تیزی سے بڑھتا ہے کیونکہ ریٹائرمنٹ کی اوسط عمر 45 سال ہے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اگر سول وفاقی ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کردی جائے تو بھی ایسا ہی ہوگا۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے ریٹائرمنٹ کی موجودہ عمر 60 سال برقرار رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تنخواہ کا حساب آخری بنیادی تنخواہ کے مطابق لگایا جائے تو اس بل میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال، ملازمین کو ان کی آخری تنخواہ سے دوگنا ماہانہ پنشن لینے کی اجازت ہے، اسٹیٹ بینک کے سابق سربراہ نے کہا کہ آپ الاؤنسز کو چھوڑ دیتے ہیں اور آپ اپنی پنشن کو بہت حد تک کنٹرول کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عشرت حسین اور حسن خاور، دونوں کا خیال ہے کہ پیرامیٹرک اصلاحات سے حکومت کو پنشن کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
عمر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، ڈاکٹر عشرت حسین دلیل دیتے ہیں کہ بہت سی خرابیاں ہیں۔
’اصلاحات کی ضرورت‘
حسن خاور کے تین حصوں پر مشتمل مقالے ’ڈیفرڈ ڈریمز: پاکستان کے پبلک سیکٹر کے پنشن بحران سے نمٹنا‘ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2019 میں سول اور ملٹری ملازمین کے لیے وفاقی حکومت کی پنشن کا خرچ 245 ارب روپے تھا، گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں اس میں 9 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے بعد سے 25-2024 میں پنشن کا بل بڑھ کر ایک کھرب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے، جو سالانہ اوسطاً 19 فیصد اضافہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب یہ بوجھ ہر 4 سال میں دوگنا ہونے کا امکان ہے، ایک ایسا راستہ جو واضح طور پر ناقابل برداشت ہے۔
2021 میں کی گئی ایکچوریل اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ 30 جون 2021 تک سرکاری ملازمین کے لیے متعین کردہ فوائد کی ذمہ داری کی قیمت 2 ہزار 900 ارب روپے تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنشن کی ذمہ داریاں بڑی حد تک فنڈز سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے پائیداری کے خطرات پیدا ہو رہے ہیں، گزشتہ دہائی کے دوران فوجی پنشن سمیت وفاقی پنشن اخراجات میں 5 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران ٹیکس محصولات میں صرف 2.7 گنا اضافہ ہوسکا ہے۔
پنشن کے واجبات میں اضافہ عوامی محصولات میں اضافے سے بھی زیادہ ہے، جو وفاقی حکومت کی خالص محصولات کی وصولیوں کا 12 فیصد استعمال کر رہا ہے، جو ایک دہائی قبل 8.9 فیصد تھا۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات میں تقریباً 4.4 گنا اضافہ ہوا ہے، اس کے برعکس سول حکومت کے آپریشنل اخراجات میں صرف 2.7 گنا اضافہ ہوا، مالی سال 22-2021 پنشن میں اضافے کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال پنشن کی لاگت پہلی بار پوری سول حکومت کو چلانے کے اخراجات سے 10 ارب روپے زیادہ رہی۔
اگلے سال یہ فرق بڑھ کر 56 ارب روپے تک پہنچ گیا اور توقع ہے کہ یہ فرق بڑھتا رہے گا۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں کو بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس سال چاروں صوبوں کے لیے مجموعی پنشن اخراجات 850 ارب روپے سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔
پاکستان ریلویز پہلے ہی اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ پنشن کی ادائیگی کے لیے مختص کر رہا ہے، جو اکثر موجودہ ملازمین کی تنخواہوں کی مجموعی لاگت سے زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان پوسٹ کے بجٹ کا تقریباً ایک تہائی حصہ اب پنشن کی ادائیگی وں کے لیے مختص ہے، جو حکومت کے تمام سطحوں میں ایک منظم مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔
ریٹائرمنٹ کی کم عمر کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں بچت ہوگی اور نوجوان افراد کے لیے سرکاری شعبے کی ملازمتیں کھل سکیں گی۔ پاکستان جیسی مارکیٹ میں جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد اور نوجوان آبادی میں بے روزگاری کی بلند سطح ہے، یہ زیادہ ملازمتوں کو یقینی بنائے گا اور افرادی قوت کی ہموار منتقلی کو فروغ دے گا۔
اطلاعات کے مطابق، حکومت تمام محکموں میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو مرحلہ وار کم کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ علیحدگی کے اخراجات میں ابتدائی اضافے کا انتظام کیا جا سکے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز، ریگولیٹری اتھارٹیز اور پروفیشنل کونسلز کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اسی طرح کی کٹوتی کریں، متعلقہ ادارے وفاقی وسائل پر انحصار کیے بغیر ان اصلاحات کی مالی لاگت کا انتظام کریں گے۔
گزشتہ چند سالوں میں وفاقی حکومت نے کئی پنشن اصلاحات نافذ کی ہیں، جن میں سب سے قابل ذکر رواں مالی سال سے نئے سول سرکاری ملازمین اور اگلے مالی سال سے نئی فوجی بھرتیوں کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق وفاقی ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ ڈالیں گے جبکہ حکومت فنڈ میں 20 فیصد حصہ ڈالے گی۔
حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی پیرامیٹرک اصلاحات میں پنشن کا حساب لگانے کا نظر ثانی شدہ فارمولا، قبل از وقت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانے، متعدد پنشنوں کا خاتمہ، فیملی پنشن کے نظام میں تبدیلی اور مستقبل میں اضافے کے طریقہ کار وغیرہ شامل ہیں۔