آزاد کشمیر میں معطل شدہ صدارتی آرڈیننس کے خلاف مکمل ہڑتال
متنازع صدارتی آرڈیننس کی منسوخی کے لیے شہری تنظیموں کے اتحاد کی کال پر مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نے جمعرات کو آزاد جموں و کشمیر کو مفلوج کر دیا جس کے باعث جزوی ردعمل کی توقع کرنے والی حکومت کو دھچکا لگا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) کی جانب سے جمعہ کو بھی ہڑتال جاری رکھنے کے اعلان کے بعد حکومت نے مذاکرات کی نئی پیش کش کردی۔
وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید نے کہا ہے کہ ’صدارتی آرڈیننس کو (عدالت کی جانب سے) معطل کر دیا گیا ہے، آئیے ہم سب مل کر طویل اور قلیل مدتی مسائل کے جدید حل تلاش کریں‘۔
قبل ازیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر نے متنبہ کیا تھا کہ اگر حکومت نے جمعہ کی دوپہر 12 بجے تک قیدیوں کو رہا اور آرڈیننس کو منسوخ نہ کیا تو وہ ریاست بھر سے مظفر آباد تک لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید نے کابینہ ارکان سردار جاوید ایوب، اکمل سرگالا اور اکبر ابراہیم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احتجاج کے دوران امن و امان برقرار رکھنے پر عوام کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ ’امن برقرار رکھتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرانا ایک پختہ اور سمجھدار قوم کی پہچان ہے، میں ایک بار پھر معاشرے کے سبھی طبقات خاص طور پر احتجاج کرنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور ریاست کی بہتری اور ترقی کے لیے مل کر کام کریں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے آرڈیننس کی معطلی کے بعد کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ عقل ہماری طاقت ہے اور مکالمہ ہمارا ہتھیار ہے، ہم احتجاج کرنے والے دوستوں کو آئینی ذرائع اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ان کے جائز مطالبات کو حل کرنے کی فراخدلانہ پیشکش کرتے ہیں۔
ریاست بھر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ہڑتال کی کال پر عوام نے غیر معمولی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیرگردش ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بازار بند اور سڑکیں ویران ہیں، اگرچہ کچھ علاقوں میں موٹر سائیکلیں اور کچھ نجی گاڑیاں دیکھی گئیں، لیکن مظاہرین نے ان کی نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، جو پچھلے مظاہروں سے ایک تبدیلی کی علامت ہے۔
کئی مقامات پر مظاہرین نے پتھروں، ملبے اور جلتے ہوئے ٹائروں سے سڑکیں بند کردیں، تاہم پولیس نے بڑے پیمانے پر تصادم سے گریز کیا، صرف ضلع باغ کے گاؤں کوتھرا گاؤں میں مختصر جھڑپیں ہوئیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس کو پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
ہڑتال کی کال پر خطے بھر میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں شرکا نے آزاد کشمیر کا قومی پرچم لہرایا اور آرڈیننس کے خلاف نعرے لگائے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ مظاہروں میں خواتین نے بھی شرکت کی۔
احتجاج کے مرکز مظفر آباد میں میڈیکل اسٹورز اور گلیوں میں لگنے والے پتھاروں سمیت تمام کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں، حتیٰ کہ حکومت کے حامی تاجروں نے بھی وعدے کے برخلاف اپنی دکانیں بند رکھیں، بینکس اور کچھ تعلیمی ادارے قلیل حاضری کے ساتھ کھلے رہے۔
تاہم آزاد جموں و کشمیر بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے معمول کے مطابق امتحانات لیے تاہم ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث کچھ طلبہ امتحانی مراکز نہیں پہنچ سکے۔
کور کمیٹی کے رکن شوکت میر نے اس الزام کو مسترد کردیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی ریاست یا اس کے نظریے کی مخالف ہے، انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم اس ریاست یا اس کے نظام کو کبھی پٹڑی سے اترنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہماری شناخت ہے اور ہم اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے تاجروں کے ساتھ بینک روڈ پر چلتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ زبردست ہڑتال کالے قانون کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے اور عوام کی طاقت کو کمزور کرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
انہوں نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی حمایت کرنے کے لیے مالی نقصانات برداشت کرنے پر عوام کا شکریہ ادا کیا، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سمجھداری سے کام لینا چاہیے، اگر لوگوں کو مزید دھکیلا گیا تو آج کا پرامن احتجاج کچھ اور ہو سکتا ہے۔
دریں اثنا، راولاکوٹ میں ہزاروں افراد نے عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کے رکن عمر نذیر کشمیری کی قیادت میں ریلی میں شرکت کی۔
یاد رہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی احتجاج اور جلسے سے ایک ہفتے قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اس آرڈیننس کو مرکزی بار ایسوسی ایشن مظفر آباد اور آزاد کشمیر بار کونسل کے 3 ارکان نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
تاہم ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں درخواست دائر کردی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے پرامن احتجاج اور امن عامہ سے متعلق آرڈیننس 2024 کا نفاذ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 اپیلیں منظور کرلی تھیں، تاہم عوامی ایکشن کمیٹی نے آرڈیننس کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔