بنگلہ دیش:سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی ’نفرت انگیز تقاریر‘ پر پابندی عائد
بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی نفرت انگیز تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی، رواں سال اگست کے ’انقلاب‘ کے دوران مظاہرین کے قتل کے الزام میں سابق وزیر اعظم پر چند ہفتے قبل فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) حسینہ واجد کے خلاف دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ ’اجتماعی قتل‘ کے الزامات کے تحت بھی تحقیقات کر رہا ہے۔
پراسیکیوٹر غلام منور حسین تمیم نے صحافیوں کو بتایا کہ شیخ حسینہ کئی مقدمات میں نامزد ہیں جن کی اس وقت ٹریبونل تحقیقات کر رہا ہے، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ آئی سی ٹی نے سابق وزیراعظم کی تقاریر پر پابندی عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
غلام منور نے بتایا کہ ’ہم نے حسینہ واجد کی نفرت انگیز تقاریر کو پھیلانے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ اس سے قانونی کارروائی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے یا گواہوں اور متاثرین کو ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے‘، اگر ان کی تقاریر کا سلسلہ جاری رہا تو ٹربیونل میں گواہوں کو لانا بھی مشکل ہو جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ حسینہ واجد کی کون سی تقاریر ’نفرت انگیز‘ قرار دی جائیں گی یا اس حکم پر کس طرح عمل درآمد کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ حسینہ واجد کی جانب سے نیویارک میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس پر بڑے پیمانے پر ’قتل عام‘ کا الزام عائد کیا تھا۔
حسینہ واجد کی برطرفی سے چند ہفتے قبل سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر اموات پولیس کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔
حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چند گھنٹوں کے دوران مزید کئی افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر ایسے افراد شامل تھے جو ’عوامی لیگ پارٹی‘ کے کٹر حامیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں شامل رہے تھے۔
حسینہ واجد نے 2010 میں پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ آزادی کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے آئی سی ٹی کا قیام عمل میں لایا تھا، تاہم اگلے چند سالوں میں اس انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے حسینہ واجد کی سیاسی جماعت کے مخالف متعدد اہم سیاسی رہنمائوں کو موت کی سزا سنائی، جس کے نتیجے میں کئی ’حریف رہنمائوں‘ کو پھانسی دی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس ٹربیونل کو باقاعدگی سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت کے مناسب معیار پر پورا نہیں اترتا، اس ٹربیونل کو حسینہ واجد کے حریفوں کو ختم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔
2006 کے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں قائم عبوری حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت پر حسینہ واجد کی حوالگی کے لیے زور دے گی تاکہ ٹربیونل کے ذریعے مقدمہ چلایا جا سکے۔