کراچی، کشمور اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں مزید 3 پولیو کیسز رپورٹ
ملک میں پولیو کیسز میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، پیر کو کراچی، کشمور اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں مزید 3 پولیو کیسز سامنے آگئے، جس کے بعد ملک میں رواں سال سامنے آنے والے مجموعی پولیو کیسز کی تعداد 59 ہوگئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی ادارہ صحت اسلام آباد میں قائم ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے انسداد پولیو کے ایک عہدیدار کے مطابق ڈیرہ اسمٰعیل خان، کراچی اور کشمور میں پولیو وائرس ٹائپ 1 (ڈبلیوپی وی 1) کے 3 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ’بچوں سے حاصل کیے گئے نمونوں کی جینیاتی ترتیب سے پتا چلتا ہے کہ وہ جینیاتی طور پر ایک ہی ڈبلیو پی وی 1 وائرس کے جینیاتی کلسٹر سے جڑے ہوئے ہیں‘۔
جنوبی خیبر پختونخوا میں پولیو سے متاثرہ 7 اضلاع میں سے ایک ڈی آئی خان میں اب تک پولیو کے 8 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
رواں سال اب تک رپورٹ ہونے والے 59 کیسز میں سے 26 کا تعلق بلوچستان، 16 کا خیبر پختونخوا، 15 کا سندھ اور ایک ایک کا تعلق پنجاب اور اسلام آباد سے ہے۔
پاکستان پولیو پروگرام ہر سال بڑے پیمانے پر حفاظتی قطرے پلانے کی مہم چلاتا ہے اور بچوں کو براہ راست ان کی دہلیز پر ویکسین پہنچاتا ہے۔
مزید برآں، حفاظتی ٹیکوں سے متعلق توسیعی پروگرام صحت کے مراکز میں بچوں کی 12 بیماریوں کے خلاف مفت ٹیکے فراہم کرتا ہے۔
پولیو کے سدباب کے لیے اگلی بڑی ویکسینیشن مہم دسمبر کے وسط میں شیڈول ہے جس کا مقصد 4 کروڑ 40 لاکھ سے زائد بچوں تک ویکسین پہنچانا ہے۔
پولیو کی موجودہ وبا کے پیش نظر والدین کے لیے یہ یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ ان کے 5 سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں تاکہ انہیں اس بیماری سے بچایا جا سکے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دنیا کے واحد ممالک ہیں جہاں وائرس اب تک پھیلا ہوا ہے جبکہ وائرس 5 سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے اور کبھی کبھار انہیں زندگی بھر کے لیے معذور کردیتا ہے۔
پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، رواں سال اب تک 59 کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ 2023 میں صرف 6 اور 2021 میں صرف ایک کیس سامنے آیا تھا۔
گزشتہ ماہ پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو دھماکے سے نشانہ بنانے کے نتیجے میں 5 بچوں سمیت 7 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ چند روز بعد 2 پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔
ماضی میں مذہبی انتہا پسندوں نے ویکسین میں سور کے گوشت اور شراب کی ملاوٹ کے دعوے کیے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے پولیو کے قطروں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح 2011 میں پاکستان میں امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے اس وقت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے جعلی ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا تھا جس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا تھا۔
حال ہی میں عسکری تنظیموں نے ویکسین ٹیموں کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔
2021 میں پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت واپس آنے کے بعد پاکستان میں حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ اسلام آباد نے دہشت گردوں کا افغانستان سے سرگرم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
پشاور کے ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ ’ان کے علاقے میں تقریباً آدھے سے زیادہ والدین پولیو کے قطرے پلانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، وہ اسے مغرب کی ایک سازش سمجھتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ویکسین کے متعلق لوگوں میں آگاہی نہیں تھی، اگر یہ وائرس ہماری وجہ سے پھیل رہا ہے تو نہ صرف ہم خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ہم اسے پوری کمیونٹی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
ماضی میں پولیو ویکسین کے خلاف بعض مذہبی رہنما جنہیں پاکستان میں بے پناہ اثرورسوخ حاصل ہے، اب والدین کو قائل کرنے کی مہم میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔