پالیسی کی خامیاں، معاشی رکاوٹیں ’فائیو جی‘ کے اجرا کے منصوبوں پر اثر انداز
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے غیر ملکی کنسلٹنٹس نے اہم پالیسی، کاروباری اور انتظامی چیلنجز کی نشاندہی کی ہے جو اپریل 2025 میں طے شدہ ’فائیو جی‘ اسپیکٹرم ٹیکنالوجی کے اجرا میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی معاونت سے چلنے والی کنسلٹنسی فرم نیشنل اکنامک ریسرچ ایسوسی ایٹس (این ای آر اے) نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک ہفتے کی مشاورت کے بعد جمعہ کو حکومت کے ساتھ اپنے ابتدائی نتائج شیئر کیے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں نیکسٹ جنریشن اسپیکٹرم فائیو جی کی نیلامی تاخیر کا شکار ہے، اس سے قبل اگست 2023 میں نگران وفاقی حکومت کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ 10 ماہ کے دوران پاکستان میں فائیو جی سروسز کا آغاز کر دیا جائے گا، 14 ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال فائیو جی کی نیلامی کا مرحلہ بھی شروع نہیں ہوسکا۔
پی ٹی اے کی جانب سے ہائر کیے گئے امریکی کنسلٹنٹس نے مشاورتی کمیٹی کو اگلی نسل (نیکسٹ جنریشن) کی موبائل براڈ بینڈ سروسز کے لیے انٹرنیشنل موبائل ٹیلی کمیونیکیشن (آئی ایم ٹی) اسپیکٹرم جاری کرنے کے بارے میں بریفنگ دی۔
یاد رہے کہ کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ہیں۔
اس حوالے سے جاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین، وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شیزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین پی ٹی اے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت قانون کے سیکریٹریز اور دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔
انٹرنیٹ کی فراہمی پر انتظامی پابندیوں، موجودہ اسپیکٹرم کے ناکافی استعمال اور مقامی کرنسی کے بجائے غیر ملکی زرمبادلہ میں نیکسٹ جنریشن کے اسپیکٹرم (فائیو جی) کی نیلامی کو مارکیٹ میں موجود ماہرین کی جانب سے نمایاں اور اہم عوامل بتایا گیا تھا۔
کنسلٹنٹس اپنی حتمی رپورٹ مقررہ وقت میں پیش کریں گے، حکومت نے فائیو جی اسپیکٹرم کی نیلامی کے لیے اپریل 2025 کا ہدف مقرر کیا ہے۔
کنسلٹنٹس نے فائیو جی کی نیلامی کے لیے قیمتوں کا تعین کرنے والے مختلف عوامل پر بھی آگاہی دی، جس میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر ممالک کا رجحان اب مقامی کرنسیوں میں نیلامی کی جانب ہوگیا ہے، تاہم پاکستان سمیت بعض دیگر ممالک اب بھی غیر ملکی زر مبادلہ لانے کی تلاش میں ہیں، اس وجہ سے مسابقت محدود ہوسکتی ہے اور یہ عمل نیلامی کی قیمتوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے اور ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے سرمایہ کاری میں کمی کا بھی خدشہ ہے۔
کنسلٹنٹس نے نوٹس کیا کہ کچھ موجودہ آپریٹرز معاشی حالات اور انتظامی پابندیوں کی وجہ سے گنجائش کی کمی کی وجہ سے آنے والی نیلامی کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل معیشت اور ڈیجیٹل انضمام کی اہمیت کو اجاگر کیا جو ملک کی اقتصادی تبدیلی کے ایک اہم ’جزو‘ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت رابطے (کنیکٹیویٹی) کو بڑھانے اور ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور مختلف شعبوں کے مابین سماجی و اقتصادی ترقی، معاشی سرگرمیوں میں تبدیلی اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے جدید ایپلی کیشنز کو بڑے پیمانے پر اپنانے کو یقینی بنایا جاسکے‘۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں فائیو جی نیلامی کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور پی ٹی اے کی جانب سے ہائر کی گئی امریکی کنسلٹنٹ فرم نیرا کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں بولی کے عمل کے ذریعے پاکستانی کی مارکیٹ کا جائزہ لینے، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور شعبہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے پالیسی سفارشات تیار کرنے اور اگلے سال اپریل تک کامیاب اسپیکٹرم ( فائیو جی) نیلامی کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے لیے کام کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
حکومت اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے کے مختلف شراکت دار براڈ بینڈ سہولتوں میں اضافے، توسیع اور غیر ملکی زرمبادلہ کی زیادہ آمدنی کے لیے سازگار شرح پر نیکسٹ جنریشن کی ٹیلی کام سروس شروع کرنے کے درمیان تجارت پر بحث کر رہے ہیں۔
کنسلٹنٹس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ ایک ایسا ماڈل پیش کریں گے جو دونوں مقاصد کو متوازن کرے گا لیکن تجویز دی کہ اس کے لیے حکومت کو ٹریفک اور مواد کی پابندیوں کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔
بعض سیلولر آپریٹرز ملک میں آئی ٹی سیکٹر کی توسیع اور ترقی کے مخالف ماحول کے بارے میں شکایت کرتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان 3 سال قبل متعارف کرائے گئے ’فور جی‘ اسپیکٹرم کا بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا تھا۔