کرم ایجنسی: جنگ بندی کی کوششیں ناکام، مسلح تصادم میں مزید 12 افراد جاں بحق
کرم ایجنسی میں جنگ بندی معاہدے کے ذریعے دشمنی روکنے کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد تازہ مسلح تصادم کے نتیجے میں مزید 12 افراد جاں بحق جبکہ 18 زخمی ہوگئے، گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والی خونریز لڑائی کے نتیجے میں اب تک 90 افراد اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے اندھا دھند فائرنگ کے تازہ واقعات اپر اور لوئر کرم کے علاقوں میں پیش آئے ہیں۔
واضح رہے کہ کرم ایجنسی میں حالیہ مسلح تصادم کا آغاز گزشتہ ہفتے لوئر کرم میں گاڑیوں کے ایک قافلے پر حملے کے بعد ہوا تھا، اس حملے میں 40 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے، بعد ازاں مقامی انتظامیہ اور قبائلی عمائدین کے کردار ادا کرنے کے بعد متحارب فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوگیا تھا۔
ڈان کو دستیاب سرکاری رپورٹ کے مطابق فائرنگ کا حالیہ واقعہ جالمے، چادریوال اور تالو کنج گاؤں کے درمیان پیش آیا، لوئر، اپر کرم کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا، متحارب فریقین نے لاشوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی کیا، ایک ہفتے میں کرم ایجنسی میں مجموعی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 90 ہوچکی ہے۔
جمعرات کے روز سے اس مسلح تصادم کے دوسرے ہفتے کے آغاز پر اپر کرم کے علاقے غوزرگڑی میں ایک شخص فائرنگ سے ہلاک ہوگیا جبکہ غوزرگڑی، مقبال اور کنج علی زئی کے علاقوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اپر کرم میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی، 116 ونگ) کے باسو کیمپ کو مارٹر شیل سے نشانہ بنایا گیا، اس حملے کے نتیجے میں 2 ایف سی اہلکار زخمی ہوئے۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) جاوید اللہ محسود، مقامی قبائلی عمائدین اور پولیس اہلکاروں نے اپنی گاڑیوں پر سفید جھنڈے لگاکر بالیش خیل اور سنگینا میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے کوشش کی، تاہم حالیہ فائرنگ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ان کی امن کے لیے یہ کوششیں اور متاثرہ علاقوں میں پولیس کی نفری تعینات کرنے کا مقصد کامیاب نہیں ہوسکا۔
لوئر کرم میں اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) حفیظ الرحمٰن، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) جہانزیب، سابق رکن قومی اسمبلی فخر زمان بنگش، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی ریاض شاہین، ونگ کمانڈر اور مقامی عمائدین نے خارکلے، مارگنائے چینا کے علاقوں میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے کوششیں کیں، تاہم ان کی یہ کوششیں بھی فائرنگ رکوانے میں ناکام ہوگئیں اور باغان، علی زئی، خارکلے اور بالیچ خیل کے علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
کمشنر کوہاٹ ڈویژن، کوہاٹ، ہنگو اور اورکزئی اضلاع کے ارکان پر مشتمل گرینڈ جرگے میں بھی جمعرات کے روز امن و امان کے حوالے سے بات چیت کی گئی، اس سے ایک روز قبل دونوں جانب کے متحارب فریقین نے 30 نومبر کو ختم ہونے والی جنگ بندی میں ایک ہفتے کی توسیع پر اتفاق کیا تھا۔
یرغمالیوں کا تبادلہ
جنگ بندی کے معاہدے میں فریقین کے مابین یہ اتفاق رائے بھی ہوا تھا کہ جمعرات کے روز تک دونوں جانب سے خندقیں خالی کی جائیں گی، ان خندقوں پر پاک فوج اور پیراملٹری فورسز کے اہلکار تعینات کیے جائیں گے، جنگ بندی کے دوران ہی دونوں فریقین کے درمیان لاشوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔
سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں جانب کے متحارب گروپوں کے مابین مسلح تصادم کے دوران یر غمال بنائے گئے افراد اور قبضے میں لی گئی لاشیں واپس کی جاچکی ہیں۔
سابق رکن قومی اسمبلی اور مقامی قبائلی رہنما فخر زمان بنگش نے یرغمال بنائی گئی 4 خواتین اور ایک مرد کو کرم ملیشیا (113 ونگ) کے حوالے کیا، اس دوران ونگ کمانڈر اور لوئر کرم کے اسسٹنٹ کمشنر بھی موجود تھے، ان یرغمالیوں کا تعلق گودار کے علاقے سے تھا، جہاں سے انہیں اغوا کرکے لوئر کرم میں ساتین کے علاقے لے جایا گیا تھا۔
اسی طرح ایک گروپ کی جانب سے عزیز اللہ ولد عیسیٰ خان کی لاش بھی ضلعی انتظامییہ کے حوالے کی گئی، جسے بعد میں اس کے لواحقین کے سپرد کردیا گیا۔
ضلع کرم کے محکمہ صحت کے افسر ڈاکٹر قیصر عباس نے کہا ہے کہ کرم کے ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی قلت ہے، سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے ادویات کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے خبردار کیا ہے کہ کرم میں مسلح تصادم کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ سلسلہ پورے ملک کے طول و عرض میں پھیل سکتا ہے۔