نائیجیریا میں ’معجزاتی حمل‘ کے نام پر خواتین کے ساتھ دھوکے کا اسکینڈل
شرح پیدائش میں سرفہرست ممالک میں شمار ہونے والے افریقی ملک نائیجیریا میں ’معجزاتی حمل‘ کے نام پر خواتین کے ساتھ بہت بڑا اسکینڈل سامنے آگیا، جس میں بعض خواتین کے حمل کی مدت 15 ماہ تک بھی ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے نائیجرین حکام کے ساتھ کی جانے والی تفتیش کے بعد ’معجزاتی حمل‘ کے اسکینڈل پر اپنی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات کیے ہیں، جن سے کئی لوگ حیران رہ گئے۔
بی بی سی کے مطابق ’معجزاتی حمل‘ سے متعلق توہمات نہ صرف نائیجیریا بلکہ متعدد افریقی اور امریکی ممالک میں بھی پائے گئے اور وہاں کے لوگ بھی ایسے غیر سائنسی حمل کی پرچار کرتے نظر آئے، جنہیں طبی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ اسکینڈل کے مطابق نائیجیریا کے متعدد علاقوں میں نام نہاد ڈاکٹرز اور نرسز نے ایسے جھوٹے کلینکس بنا رکھے ہیں، جن میں ہر طرح کی بانجھ خاتون کو حاملہ کرنے کا دعویٰ اور علاج کیا جاتا ہے۔
مذکورہ کلینکس ایسے گنجان آبادی اور دیہی علاقوں میں کام کرتے ہیں، جہاں کی خواتین پست حال، کمزور، مالی طور پر غیر مستحکم اور سماجی رسم و روایات میں جکڑی ہوتی ہیں اور ان پر بچے پیدا کرنے کا دباوٌ بھی رہتا ہے۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والی تفتیش میں نائیجیرین حکام اور بی بی سی کی ٹیم کو متعدد ایسے کیسز دیکھنے کو ملے، جن میں خواتین پہلے بانجھ تھیں لیکن مذکورہ کلینکس میں جانے کے بعد ان کے ہاں ’معجزاتی حمل‘ ٹھہرا، یعنی خواتین کے پیٹ پھولے دکھائی دینے لگے اور پھر اختتام پر انہیں ایک بچہ بھی دیا گیا۔
بچوں کی خواہش مند خواتین کا مکمل علاج اور یہاں تک کہ بچے کی پیدائش بھی مذکورہ کلینکس کے زیر اہتمام کرائی جاتی اور اختتام پر ہر خاتون کے پاس بچہ ضرور ہوتا، تاہم زیادہ تر خواتین کو حمل یا بچے کی پیدائش کے مکمل طریقہ کار کا علم نہ ہوتا۔
زیادہ تر خواتین کے مطابق وہ بانجھ تھیں لیکن مذکورہ کلینکس میں جانے کےبعد جب انہیں انجکشن لگایا گیا یا گولیاں دی گئیں یا پھر ان کی اندام نہانی میں کوئی چیز رکھی گئی تو وہ شوہر سے ہمبستری کے بعد خود کو حاملہ محسوس کرنے لگیں۔
بی بی سی کی ٹیم یا نائیجرین حکام اس بات کا پتا لگانے میں ناکام رہے کہ خواتین کو آغاز میں انجکشن یا گولیوں کے ذریعے کون سی دوائی دی جاتی ہے؟
مذکورہ کلینکس میں خواتین کو حاملہ بنانے کے لیے آغاز میں 200 سے 250 امریکی ڈالر لیے جاتے جب کہ اختتام پر 1200 امریکی ڈالرز تک وصول کیے جاتے اور 9 ماہ کے اندر 1200 امریکی ڈالرز نہ دینے والی خواتین کو کہا جاتا کہ ان کا حمل مزید کئی ماہ تک بڑھ سکتا ہے جب کہ بچے کے بھی کمزور ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
حمل کی مدت کے اندر پیسے فراہم کرنے والی خواتین کا کلینکس کے اندر عمل مکمل کرکے انہیں بچہ دے دیا جاتا جب کہ وقت پر رقم نہ دینے والی خواتین کے حمل کی مدت 15 ماہ تک بھی بڑھا دی جاتی لیکن اختتام پر انہیں بھی بچے کی پیدائش کا عمل مکمل کروانے کے بعد بچہ فراہم کردیا جاتا۔
مذکورہ تفتیش کے دوران حکام اور بی بی سی ٹیم کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کلینکس میں ملک بھر کی دوسری حاملہ خواتین کو بھی لایا جاتا اور انہیں ان کی مرضی کے بغیر دوسری جگہ قید کردیا جاتا تھا اور ان کے ہاں بچوں کی پیدائش کے بعد ان کے بچے انہیں نہیں دیے جاتے تھے۔
مذکورہ کلینکس میں آنے والی حاملہ خواتین عام طور پر کم عمر لڑکیاں ہوتی تھیں جو اسقاط حمل کی غرض سے مذکورہ کلینکس کا رخ کرتی تھیں اور ان کا اسقاط حمل کروانے کے لیے انہیں دوسری جگہ رکھا جاتا تھا، جہاں سے ان کے بچے ہونے کے بعد انہیں فارغ کردیا جاتا اور انہیں بدلے میں کچھ رقم بھی دے دی جاتی۔
اسکینڈل میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ کلینکس میں ’معجزاتی حمل‘ کی خواہش مند خواتین کو اسقاط حمل کروانے والی خواتین کے بچے دے دیے جاتے اور یوں ’معجزاتی حمل‘ ٹھہرانے والی کلینکس کا کام بڑھتا چلا جاتا۔