اعظم سواتی کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر لیا گیا از خود نوٹس خارج
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر لیا گیا از خود نوٹس نمٹا دیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فوجداری داری واقعے پر اعظم سواتی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی، فوجداری مقدمے میں اعظم سواتی کی جائیدادوں کا معاملہ کدھر سے آگیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ اعظم سواتی کے ٹیکس یا جائیدادوں کے معاملے کو متعلقہ محکمہ دیکھے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر کوئی متاثرہ فریق ہے تو اعظم سواتی کے خلاف متبادل فورم سے رجوع کرے۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فوجداری معاملہ پرٹرائل چل رہا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ اعظم سواتی پر بطور وزیر اپنے آفس کا غلط استعمال کا الزام تھا۔
مقدمے کا پس منظر
خیال رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ ’سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا۔
تاہم بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
بعد ازاں 29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا تھا اور لکھا تھا کہ اعظم سواتی نے غلط بیانی کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کیا جبکہ ایک وفاقی وزیر کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔
اس جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالت نے اعظم سواتی کو جواب داخل کرانے کا کہا تھا، جس پر 5 دسمبر کو اعظم سواتی نے عدالت میں جواب جمع کرایا تھا۔
اپنے جواب میں اعظم سواتی نے کہا تھا کہ میں نے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اس لیے میں قانون کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ نیاز محمد خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور اپنے عہدے کاغلط استعمال نہیں کیا جبکہ اس حوالے سے جے آئی ٹی کا الزام غلط ہے اور میں نے پولیس کی ہدایت پر عمل بھی کیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا تھا کہ مجھے پتا چلا کہ خاتون کو گرفتار کیا گیا تو اسی وقت اپنے بیٹے سے کہا کہ اس معاملے میں راضی نامہ کیا جائے، تاہم یہ معاملہ راضی نامے پر ختم ہو چکا ہے۔
اعظم سواتی نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی ان سے متعلق رائے درست نہیں، جن کے مندرجات حتمی حیثیت نہیں رکھتے اور انہیں عدالت میں ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم 5 دسمبر کی ہی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ 62 ون ایف پر شہادتیں ریکارڈ کرنے کی مجاز ہے۔
بعد ازاں 6 دسمبر 2018 کو وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اعظم سواتی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔