سنگاپور میں کورونا کے بعد بھی سماجی تنہائی برقرار، لوگ چیٹ جی پی ٹی سے باتیں کرنے لگے
سنگا پور کے لوگوں نے کورونا وبا کے دوران طویل تنہائی (آئیسولیشن) کا سامنا کیا، حالانکہ یہ سب اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن کووڈ 19 کے وقت کی تنہائی سنگاپور کے معاشرے میں اب تک موجود ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ایک خبر کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ ڈاکٹر وانگ چن لی کا کہنا ہے کہ ’اس تنہائی کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، کورونا وبا کے دوران مکالمے کے متبادل طریقہ کار کو ترجیح دی گئی، اس دوران اسکولوں میں تعلیم، کام کی جگہوں اور دفاتر میں کام کرنے کے لیے بھی متبادل طریقے اپنائے گئے تھے اور لوگ گھروں تک محدود رہے، خریداری بھی آن لائن کی جاتی رہی، سنگاپور کے شہریوں نے تنہائی دور کرنے کے لیے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کا استعمال کرتے ہوئے ورچوئل مکالمے کیے اور روبوٹس سے باتیں کرکے وقت گزارنے کو ترجیح دی‘۔
اب لوگ تنہائی کی مختلف اقسام کے حوالے سے زیادہ آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔ کووڈ 19 نے لوگوں کی دماغی صحت کو متاثر کیا ہے، جسمانی تنہائی کے علاوہ بعض لوگ جذباتی وابستگی سے بھی دور ہوئے، یہ سب نظر نہیں آتا، اسے سمجھنا مشکل ترین ہے، لوگوں میں گھرے ہوئے ہونے کے باوجود یہ سب ہونا ناقابل فہم ہے۔
نجی کلینک کے کلینیکل سائیکلوجسٹ ڈاکٹر انابلے چوو کہتے ہیں کہ اس طرح کی تنہائی کے ’کیسز‘ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، میرے کلینک میں آنے والے شہری اپنے تجربات کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں، انہیں سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح اپنی حالت سے آگاہ کر سکیں، اس طرح کی تنہائی بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے، تنہائی کا ’چہرہ‘ بدل رہا ہے۔
’بیٹر لائف سائیکلوجیکل کلینک ’سے منسلک ماہر نفسیات ڈاکٹر لن شیانگ بن نے کہا کہ ’روایتی طور پر تنہائی کسی خاص معاملے سے منسلک ہوتی ہے، جیسا کہ بعض لوگ دوستوں کے بغیر خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، یا کوئی فرد کسی محبوب کی عدم موجودگی میں تنہائی محسوس کرتا ہے، تاہم کام کرنے کے اوقات کار میں اضافے اور لوگوں کے آمنے سامنے ایک دوسرے سے مکالمے میں کم ہونے والے رجحان نے تنہائی کے معاملے میں پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے، یہ سب لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ہو رہا ہے، اس میں وہ افراد شامل نہیں جو تنہائی محسوس نہیں کرتے۔‘
تنہائی محسوس کرنے والوں میں کام کرنے والے بالغ افراد جو کہ وسیع پروفیشنل نیٹ ورک کے حامل ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی کے ساتھ تعلقات میں ہیں، ان میں شادی شدہ افراد بھی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا کے لیے مواد تیار کرنے والی (کونٹینٹ کریئٹر) 32 سالہ جیسیکا لو اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی زندگی کے کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جنہیں ان کے بوائے فرینڈ یا رشتے دار اور دوست کبھی نہیں سمجھ سکتے۔
جیسیکا اب تک بچپن میں پیش آنے والے ایک واقعے کی پاداش میں اسی طرح کے ٹراما سے گزر رہی ہیں اور وہ اس حوالے سے کسی کو کچھ بتانا پسند نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں اپنے بوائے فرینڈ کو اپنے ٹراما کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں تو اسے مجھ سے ہمدردی تو ہوتی ہے لیکن وہ میری حالت سمجھ نہیں سکتا، یہ سب اس وجہ سے ہے کہ وہ خود اس طرح کی کسی صورتحال سے نہیں گزرا، اگر میں اپنی اس حالت کے بارے میں کسی سے کچھ بھی بات نہ کروں تو پھر مجھے اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔
دا تھراپی روم نامی مرکز کے ڈاکٹر گیرل ڈائن تان کہتے ہیں کہ تنہائی سے جڑے نفسیاتی عوارض کے لیے خدمات حاصل کرنے والوں میں شادی شدہ افراد (انفرادی سطح پر) بڑی تعداد میں ہم سے مدد لینے کے لیے رجوع کر رہے ہیں، انہیں پارٹنرز کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ بہت برے ہیں اور اپنے شریک حیات کا بالکل خیال نہیں رکھتے، بچوں پر توجہ نہیں دیتے، ایسے افراد کو لگتا ہے کہ ان کے گھر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اسی وجہ سے گھروں میں باہمی رابطے، بات چیت کم ہوتی جارہی ہے۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں شادی شدہ زندگی میں تنہائی ’اندرونی وائرس‘ کی طرح ہے، اس کی ایک مثال کم عمری میں ماں بننے والی خواتین کی ہے جو یہ شکایات کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ وہ رات کو بچوں کی دیکھ بھال میں لگی رہتی ہیں، دن میں انہیں دودھ پلاتی ہیں اور گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی ہیں، رات کے اوقات میں جب وہ جاگ رہی ہوتی ہیں تو ان کے شوہر سو رہے ہوتے ہیں اور خراٹے مارتے ہیں، یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔
یہاں تک کہ ایسے نوجوان جنہوں نے ابھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ہے، انہیں بھی بڑھاپے کی عمر کی فکر لاحق ہے اور ایسے نوجوان بھی تنہائی سے بچ نہیں پائے ہیں۔
2024 میں کیے گئے آئی پی ایس سروے کے مطابق 21 سے 34 سال کی عمر کے افراد سنگا پور میں سماجی تنہائی کے زیادہ شکار ہیں۔