بینکوں کا مقررہ حد سے زائد کیش ڈپازٹس پر ماہانہ 5 فیصد فیس عائد کرنے کا اعلان
کمرشل بینکوں نے حکومت کے عائد کردہ لیوی ٹیکس (انکریمنٹل ٹیکس) سے بچنے کے لیے مقررہ حد سے زائد کیش ڈپازٹ پر فیس کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے اور ڈپازٹ ٹارگٹ میں کمی کرتے ہوئے ایک ارب روپے سے 5 ارب روپے کی نئی حد مقرر کردی ہے۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق تمام بڑے کمرشل بینکوں بشمول بینک الفلاح، ایم سی بی، میزان، ایچ بی ایل، اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے ایک ارب سے 5 ارب روپے یا اس سے زیادہ حد رکھنے والے تمام صارفین کو نوٹسز ارسال کرتے ہوئے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے اور ہر بینک نے اپنی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی ہے۔
21 نومبر جمعرات کے روز سے نافذ العمل شیڈول آف چارجز کے مطابق، ایسے تمام صارفین جن کا اکاؤنٹ بیلنس مہینے کے آخری دن مقررہ حد سے زائد ہوگا، انہیں ماہانہ 5 فیصد کے حساب سے فیس ادا کرنی ہوگی۔
5 فیصد فیس کا نفاذ روپے اور فارن کرنسی، دونوں قسم کے اکاؤنٹس پر ہوگا۔
صارفین کو موصول ہونے والے نوٹسز میں بعض بینکوں، جیسے کہ میزان کی جانب سے یومیہ کریڈٹ بیلنس لمٹ کا بھی نفاذ کیا گیا ہے۔
نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ ’بینک کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مقررہ حد سے رقم کی ادائیگی سے انکار اور/یاس اسے واپس کردے۔‘
بعض بینکرز کا خیال ہے کہ ایڈوانس ٹو ڈپازٹس ریشو (اے ڈی آر) کے کیس میں اگر یہ کیلنڈر سال کے اختتام پر 50 فیصد کی شرح سے کم رہتا ہے تو کیش ڈپازٹ کی رقم کی حد میں کمی آسکتی ہے۔
دوسری جانب بعض صارفین کو خدشہ ہے کہ اگر وہ 50 فیصد اے ڈی آر کا ٹارگٹ حاصل نہ کر پائے تو بینکس ان پر مزید فیس کا نفاذ بھی کرسکتے ہیں۔
ایک سینئر بینکر نے ڈان کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ کسی بینک نے کیش ڈپازٹ کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی ہو جو کہ پہلے ایک ارب سے کم تھی تاہم یہ ممکن ہے، بالخصوص ایسے بینکوں کے لیے جن کے پاس بڑی تعداد میں ایسے اکاؤنٹس موجود ہیں جن کے چھوٹے ڈپازٹس ہیں بہ نسبت کارپوریٹ اکاؤنٹس کے، جن میں زائد بیلنس موجود ہوتا ہے۔
بینکوں کی جانب سے یہ اقدامات کرنے کا مقصد حکومت کو اپنے منافع میں سے انریکمنٹل ٹیکس کی ادائیگی کرنے سے بچنا ہے جو سال کے آخر میں عائد کیا جانا ہے۔
بینکس اے ڈی آر کو نصف کرنے کیلئے پر اعتماد
بینکس اپنے اے ڈی آر کو دسمبر کے اختتام تک 50 فیصد کی سطح تک لانے کے لیے پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں، اسی لیے بینکوں نے بڑے ڈپازٹس سے بچنے کے لیے ایک جیسی حکمت عملی نافذ کی ہے۔
بینکنگ صنعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انفرادی سطح پر بینکوں نے بڑے ڈپازٹس پر 4 سے 6 فیصد تک فیس کے نفاذ کے لیے اپنے طور پر حکمت عملیاں بنائی ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں ایسے تمام بینکوں پر 15 فیصد تک انکریمنٹل ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جن کا اے ڈی آر 31 دسمبر 2024 کو 50 فیصد سے کم ہوگا۔ حکومت کا یہ فیصلہ بینکوں کے منافع میں کٹوتی کے لیے دھمکی کے طور پر دیکھا جارہا ہے، گزشتہ مالی سال بینکوں نے دگنا منافع کمایا تھا۔
معاشی ماہر اور سینئر بینکر، ایس ایس اقبال نے کہا کہ تمام بینکس مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حکومت کےانکریمنٹل ٹیکس سے بچنے کے لیے کامیاب حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس اقدام کا کوئی منفی اثر بینکوں پر نہیں پڑے گا بلکہ بینکس جو کچھ کما رہے ہیں، اسے بچا سکیں گے۔
گزشتہ 25 دن کے دوران بینکوں کی جانب سے دیے گئے قرضوں کی مالیت ایک کھرب 10 ارب روپے سے تجاوز کرگئی ہے جس سے ان کے ڈپازٹس میں کمی آئی ہے، جبکہ اسی عرصے میں بینکوں کے ڈپازٹس پہلے ہی ایک فیصد کم ریکارڈ کیے گئے تھے۔
ایک اور سینئر بینکر آر ایم عالم نے بتایا کہ اب بھی بینکوں کے پاس 40 دن ہیں کہ وہ اے ڈی آر کی حالت کو اپنی ضرورت کے مطابق ہم آہنگ بناسکیں جو کہ پہلے ہی 44 فیصد کی سطح پر ہے۔
اے ڈی آر کے 40 سے 50 فیصد کے درمیان ہونے کی وجہ سے انکریمنٹل ٹیکس پہلے ہی 6 فیصد کی نچلی سطح پر آچکا ہے، بینکنگ انڈسٹری سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ بڑے ڈپازٹس کے خلاف اقدامات سے چھوٹے کھاتے دار متاثر نہیں ہوں گے تاہم شرح سود میں کمی کی وجہ سے سیونگ اکائونٹس پر منافع کی شرح میں کمی آئے گی۔
حکومت انکریمنٹل ٹیکس سے متوقع آمدنی کے حصول میں ناکام رہی تو حکومت کی جانب سے بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرض لیے جانے کا امکان ہے، جیسا کہ گزشتہ مالی سال 2024 میں لیا گیا تھا۔ بینکوں کو حکومت کو دیے گئے قرضوں سے بڑے پیمانے پر رسک فری منافع کا حصول یقینی ہوگا۔
واضح رہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں اپنے ہدف سے 180 ارب روپے سے کم وصولیاں ہوئی ہیں حالانکہ آزادانہ اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ ریونیو شارٹ فال 400 ارب روپے ہے۔