ایرانی یونیورسٹی میں کپڑے اتار کر احتجاج کرنے والی لڑکی کو چھوڑ دیا گیا
ایران کی عدالت نے یونیورسٹی میں کپڑے اتار کا احتجاج کرنے والی طالبہ کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی اور انہیں ان کے گھر والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ نومبر 2024 کے اوائل میں ایران کی ایک یونیورسٹی میں لڑکی نے مذہبی لباس کے سخت قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے کپڑے اتار دیے تھے اور اس دوران وہ نیم برہنہ حالت میں گھومتی رہی تھی، جسے پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔
وائس آف امریکا نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترجمان عدلیہ اصغر جہانگیر نے نیوز کانفرنس میں لڑکی کا نام لیے بغیر بتایا کہ انہیں ہسپتال بھیجا گیا تھا، جہاں پتا چلا تھا کہ وہ بیمار ہیں تو انہیں ان کے گھر والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ نومبر کے شروع میں سوشل میڈیا پر ایران کی یونیورسٹی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک لڑکی ملک میں لباس پہننے سے متعلق سخت قوانین کے خلاف احتجاج ریکارڈ کررہی تھی۔
وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک لڑکی نیم برہنہ نظر آرہی ہے اور وہ اسی حالت میں یونیورسٹی کے ایک بلاگ میں سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی ہے۔
بعد ازاں، یونیورسٹی میں نیم برہنہ حالت میں گھومنے والی لڑکی کو گرفتار کرنے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی۔
یونیورسٹی کے ترجمان عامر محبوب نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’پولیس اسٹیشن اور میڈیکل ٹیم کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ لڑکی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اور وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔‘
روزنامہ ’ہمشہری‘ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا تھا کہ ’ایک باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ تہران کی یونیورسٹی میں یہ اقدام اٹھانے والی خاتون شدید ذہنی مسائل کا شکار ہیں اور تحقیقات کے بعد ممکنہ طور پر خاتون کو نفسیاتی ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ ستمبر 2022 میں حجاب قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں ایک نوجوان ایرانی کرد خاتون کی موت کے بعد ملک گیر مظاہرے کیے گئے تھے جس کے بعد بڑی تعداد میں خواتین نے اپنے نقاب کو ترک کرکے حکام کی خلاف ورزی کی۔