ڈاکٹرز کی لاپروائی جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایڈز پھیلنے کا سبب بن گئی
نشتر ہسپتال ملتان میں گردے کے درجنوں مریضوں میں ایڈز کے پھیلاؤ کی تحقیقات کرنے والے ٹیم نے ڈاکٹرز اور دیگر عملے پر سنگین غفلت و لاپروائی برتنے کے الزامات عائد کردیے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈائیلاسز کے دوران ناکارہ گردوں کے حامل مریض کی موت اور دیگر 30 مریضوں میں ہیومن امیونوڈیفیشنسی وائرس (ایچ آئی وی) / ایکوائرڈ امیونوڈیفیشنسی سنڈروم (ایڈز) انفیکشن کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد تحقیقاتی ٹیم قائم کی گئی تھی۔
پنجاب حکومت کی قائم کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ہسپتال کے شعبہ امراض گردہ (نیفرولوجی ) میں ایڈز پھیلنے کی تصدیق کی ہے۔
کمیٹی پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل، پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر، سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ نیفرولوجی کے سربراہ اور محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے ایک افسر پر مشتمل تھی۔
ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ دنیا بھر کے ہسپتالوں میں ڈائیلاسز سے پہلے اور بعد اسٹینڈرڈ آف پروسیجر (ایس او پیز) پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے تاہم تحقیقاتی کمیٹی نے نشتر ہسپتال میں عملے کی جانب سے ان ایس او پیز کی سنگین خلاف ورزی کی نشاندہی کی ہے تاہم نشتر میڈیکل یونیورسٹی (این ایم یو) کے وائس چانسلر نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔
عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ڈائیلاسز مشینوں کو باقاعدگی سے جراثیم سے پاک کرنے اور خون کی منتقلی کے لیے محفوظ بنانے جیسی عالمی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، جو ممکنہ طور پر ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سبب بنا ہے۔
ہسپتال نے ایک سال کے دوران ڈائیلاسز کے مریضوں کے مناسب طریقے سے ٹیسٹ نہیں کیے، مریضوں کے طبی ریکارڈ کو معیاری ہدایات کے مطابق دستاویزی شکل بھی نہیں دی گئی تاکہ ڈائیلاسز کا عمل شروع کرنے سے قبل اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ انفیکشن میں مبتلا نہیں ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ انفیکشن کنٹرول کمیٹی ہسپتالوں میں مریضوں کے حفاظتی پروگرام کا کلیدی حصہ ہوتی ہیں تاہم نشتر ہسپتال میں مذکورہ کمیٹی کا کئی ماہ سے اجلاس نہیں ہوا تاکہ انفیکشن کی روک تھام اور اس سے بچاؤ کا جائزہ لیا جاسکے اور ساز و سامان اور طبی آلات کی حفاظت کو یقینی بنایاجاسکے۔
عہدیدار نے بتایا کہ مزید کارروائی کے لیے رپورٹ صوبائی حکومت کو جمع کرادی گئی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ تیسرے درجے کے ہسپتال سے ایچ آئی وی / ایڈز کا پھیلاؤ ملک کی بدنامی کا باعث بناہے۔
صحت کی عالمی تنظیموں نے مریضوں کی حفاظت کے لیے معیاری ہدایات پر عمل نہ کیے جانے پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وائس چانسلر نے تحقیقات کے نتائج مسترد کردیے
دریں اثنا، نشتر میڈکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر منہاز خاکوانی نے کمیٹی کے مرتب کردہ نتائج کو مسترد کردیا ہے،
انہوں نے کہاکہ مریض نجی کلینکس میں بھی انفیکشن میں مبتلا ہوسکتے ہیں جہاں وہ بلڈ ٹیسٹ اور اسکریننگ کے لیے جاتے ہیں، انہوں نے اس خدشے کو مسترد کردیا کہ مذکورہ مریض نشتر ہسپتال کی مشینوں سے جان لیوا وائرس میں مبتلا ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہسپتال نے ایس او پیز کے جائزے کے لیے ایڈز کنٹرول پروگرام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ایسے مزید حادثات سے بچاجاسکے۔
انتظامیہ کو قربانی کے بکرے کی تلاش
عہدیدار نے بتایا کہ ہسپتال کی انتظامیہ مبینہ طور پر جونیئر ڈاکٹرز اور نرسز کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کررہی ہے، شعبہ نیفرولوجی کے پوسٹ گریجویٹ ریزیڈنٹس اور نرسنگ اسٹاف پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ لاپروائی کی ذمے داری قبول کرکے تحریری معافی جمع کرادیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ شعبہ نیفرولوجی کے سربراہ اور یونیورسٹی کے دیگر سینئر ڈاکٹرز کو بچانے کی کوشش تھی، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اس واقعے کے تناظر میں نشتر ہسپتال ملتان کا دورہ کریں گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ نشتر ہسپتال ملتان کے شعبہ نیفرولوجی میں زیر علاج ایچ آئی وی کا مریض 40 سالہ شاہنواز انتقال کرگیا تھا، بعدازاں انکشاف ہوا تھا کہ جس مشین پر اسکا ڈائیلاسز کیا گیا تھا۔
شاہنواز کی موت کے بعد ہی ڈاکٹرز نے ڈائیلاسز کروانے والے دیگر مریضوں کے ٹیسٹس کیے تھے، جن سے مزید 30 مریضوں میں ایچ آئی وی منتقل ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
ڈان نے ہسپتال انتظامیہ کے ایک عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ واقعہ گزشتہ ماہ اکتوبر میں پیش آیا تھا لیکن اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔