• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

مقتولہ سارہ شریف کی سوتیلی ماں، چچا کا اپنے دفاع میں بیان دینے سے انکار

شائع November 19, 2024
— فوٹو: سارہ شریف/ڈان
— فوٹو: سارہ شریف/ڈان

لندن کے علاقے اولڈ بیلی میں قتل کی جانے والی 10 سالہ سارہ شریف کی سوتیلی ماں اور چچا نے کیس کی سماعت کے دوران اپنے دفاع میں گواہی دینے سے انکار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران 10 سالہ سارہ شریف کو طویل عرصے تک تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی دلخراش کہانی سامنے آئی ہے۔

42 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 30 سالہ بینش بتول اور ان کے 29 سالہ بھائی فیصل ملک کو قتل، اور بچی کی موت کی وجہ بننے یا اس کو مرنے دینے کے الزامات کے تحت ٹرائل کا سامنا ہے۔

ملزمان کی جانب سے گواہی نہ دینے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب کہ مقدمہ اہم موڑ پر پہنچ گیا اور جج نے مدعا علیہان کو ان کے قانونی وکیل کے ذریعے یاد دہانی کرائی کہ عدالت ان کی خاموشی سے منفی نتائج نکال سکتی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل مقتولہ سارہ شریف کے والد عرفان شریف نے اپنی بیٹی کی موت کی ’مکمل ذمہ داری‘ قبول کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اس نے سارہ کو کرکٹ بیٹ سے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے موت واقع ہوئی۔

عرفان شریف نے اپنی 10 سالہ بیٹی کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی تفصیل بتاتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اس نے سارہ کو کرکٹ بیٹ اور اسٹیل کے پائپ سے پیٹا، جس کے نتیجے میں 8 اگست 2023 کو اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔

ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے کئی ہفتوں تک سارہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور ’ہاں، وہ میری وجہ سے مر گئی‘۔

42 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 30 سالہ بینش بتول اور ان کے 29 سالہ بھائی فیصل ملک پر استغاثہ کی جانب سے ’تشدد اور بدسلوکی‘ سے متعلق الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سارہ کی موت کے فورا بعد یہ تینوں پاکستان فرار ہو گئے تھے اور بعد میں عرفان شریف نے برطانوی پولیس کو فون کرکے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سارہ کو بہت مارا پیٹا تھا۔

واضح رہے کہ سارہ شریف کی لاش گزشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی، پاکستان فرار ہونے والے تینوں ملزمان پولیس کو مطلوب تھے۔

تینوں ملزمان کو پاکستان میں ایک ماہ گزارنے کے بعد دبئی کی پرواز سے اترتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔

سارہ شریف کے قتل میں ملوث ان کے والد، سوتیلی ماں اور چچا کو دبئی سے گرفتار کرنے کے بعد برطانیہ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جن کو عدالت نے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس وقت سارہ کی لاش کے آگے عرفان شریف کا لکھا ہوا ایک خط بھی موجود تھا جس میں انہوں نے قتل کا اعتراف کیا۔

نوٹ میں لکھا تھا کہ ’میں عرفان شریف ہوں جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں نے اسے کھو دیا‘۔

خط میں انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈر کر بھاگ رہے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عرفان شریف نے خط میں مزید لکھا کہ ’آئی لو یو سارہ‘۔ انہوں نے خط میں درخواست کی ’میری بیٹی مسلمان ہے، کیا تم اسے دفن کر سکتے ہو، جیسے کہ مسلمان کو کیا جاتا ہے، میں پوسٹ مارٹم مکمل کرنے سے پہلے واپس آ جاؤں گا‘۔

عدالت میں پیش کی جانے والی میڈیکل رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے جس میں بتایا گیا کہ 10 سالہ سارہ شریف کے جسم پر 70 سے زائد زخم پائے گئے تھے۔

محکمہ قانون نے انکشاف کیا کہ 10 اگست 2023 کو ووکنگ سرے میں آبائی گھر سے ملنے والی سارہ کی لاش پر اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کی چوٹیں موجود تھیں۔

پیتھالوجسٹ ڈاکٹر نیتھانیل کیری نے بتایا کہ بچی کے جسم پر گہرے زخم، جلنے، رگڑ اور خراشوں کے علاوہ انسانی کاٹنے کے نشانات پائے گئے تھے جبکہ اسے گرم پانی اور استری سے بھی جلایا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024