بنگلہ دیش میں ڈینگی خطرناک صورت اختیار کرگیا، رواں سال اموات 400 سے متجاوز
بنگلہ دیش کو حالیہ برسوں کے مقابلے میں ڈینگی کی بدترین وبا کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 400 سے زائد اموات ہوچکی ہیں، درجہ حرارت میں اضافے اور مون سون کا موسم طول پکڑنے کے باعث ڈینگی کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے نتیجے میں بالخصوص شہری علاقوں میں ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ رواں سال ڈینگی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث کم ازکم 407 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ملک بھر میں 78 ہزار 595 مریضوں کو ہسپتالوں میں داخل کروایا گیا ہے۔
نومبر کے وسط تک 4 ہزار 137 مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جن میں سے 1835 کاتعلق دارالحکومت ڈھاکا اور 2 ہزار338 کا تعلق دیگر علاقوں سے ہے۔
جہانگیر نگر یونیورسٹی میں شعبہ زولوجی کے پروفیسر کبیر البشر نے بتایا کہ ’ ہمیں اکتوبر میں بھی مون سون جیسی بارشوں کا سامنا رہا، جوکہ غیرمعمولی ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں تغیر پزیر موسمی حالات نے ڈینگی کی وجہ بننے والے ایڈیز اجپٹی مچھروں کو موزوں حالات فراہم کیے، یہ موسمی تبدیلیاں مچھروں کو افزائش کے لیے بہترین ماحول مہیا کررہی ہیں۔
شہروں کی گنجان آبادی اس بیماری کے پھیلاؤ کو بڑھادیتی ہے جو کہ عموماً مون سون کے موسم میں جون تا ستمبر عام بات ہے گوکہ اس سال اسکی مدت بڑھ گئی ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے اور طویل مون سون، جوکہ موسمیاتی تبدیلی سے تعلق رکھتے ہیں، مچھروں کی افزائش میں اضافے کی وجہ بنے ہیں جوکہ وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ بنا ہے۔
بشار الاسد نے بنگلہ دیش میں اس بیماری کی نگرانی اور اس پر قابو پانے کے لیے سال بھر ویکٹر نگرانی کا مطالبہ کیا۔
معروف معالج ڈاکٹر اے بی ایم عبداللہ کا کہنا ہے کہ اگر ڈینگی کی جلد تشخیص کی جائے اور اس کا مناسب علاج کیا جائے تو اموات میں ایک فیصد سے بھی کم کمی لائی جا سکتی ہے۔
گزشتہ سال ڈینگی کے حوالے سے سب سے مہلک ثابت ہوا تھا جس میں 1،705 اموات اور 3 لاکھ 21ہزار سے زیادہ انفیکشن رپورٹ ہوئے تھے۔
محکمہ صحت کے حکام نے مچھروں کے کاٹنے سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا ہے، جبکہ ماہرین چاہتے ہیں کہ جہاں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے وہاں جمے ہوئے پانی کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دور دراز علاقوں میں علاج کی تلاش میں تاخیر ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔