• KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:49am
  • LHR: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:41am
  • KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:49am
  • LHR: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:41am

سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے سکتی ہے، ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا، جسٹس محمد علی مظہر

شائع November 15, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے آج مختلف 16 مقدمات کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔

کنونشن سینٹر کے نجی استعمال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس معاملہ پر شاید واجبات بعد میں ادا کر دیے گئے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے اس سوموٹو کیس میں سابق وزیر اعظم کو بھی نوٹس کیا گیا تھا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے کنونشن سینٹر کو ادارہ کی پالیسی کے مطابق چلائیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مجھے واجبات ادائیگی کی معلومات لے لینے دیں، عدالت نے اٹارنی جنرل آفس سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

غیر ملکی خفیہ بینک اکاؤنٹس، لوٹی رقم واپسی سے متعلق سے رپورٹ طلب

اس کے علاوہ غیر ملکی بینک اکاؤنٹس خفیہ رکھنے اور لوٹی رقم ریکوری کیس کی سماعت کے دوران وکیل حافظ احسان نے مؤقف اختیار کیا کہ انکم ٹیکس قانون میں ترمیم ہوچکی ہے، قانونی طریقہ کے تحت خفیہ اکاؤنٹس اور ریکوری پر کارروائی چل رہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیس میں ایف آئی اے، ایف بی آر سمیت تمام ایجنسیوں کو رپورٹ کے احکامات جاری ہوئے۔

وکیل ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا یہ معاملہ ایف بی آر اور ایف آئی اے کا ہے، ایجنسیوں کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیس کو ختم کرنا ہے تو رپورٹ دے دیں۔

عدالت نے ایف آئی اے اور ایف بی آر کو غیر ملکی خفیہ بینک اکاؤنٹس سے متعلق رپورٹ طلب کرلی, عدالت نے لوٹی رقم واپسی پر بھی متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

وفاقی محتسب یاسمین عباسی توہین عدالت کیس کے دوران جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی پیش نہیں ہوئیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا گذشتہ سماعتوں پر وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوتی رہی ہیں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے یاسمین عباسی اب وفاقی محتسب نہیں رہیں، ہم کیوں سابق وفاقی محتسب کی طرف جا رہے ہیں؟

جسٹس مسعت ہلالی نے ریمارکس دیے سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی محتسب کی کارروائی ہائی کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے اگر کوئی فورم اختیار کے بغیر کارروائی کرے تو ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے معاملہ ابھی تو غیر موثر نہیں ہوا، لاہور ہائی کورٹ کے جج کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے، یاسمین عباسی کو نوٹس کرکے کارروائی سے آگاہ کیا جائے، ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے باوجود وفاقی محتسب مقدمہ چلاتی رہیں، حکم امتناع کے بعد محتسب کی کارروائی توہین عدالت تھی۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا نوٹس چیئر پرسن وفاقی محتسب یاسمین عباسی کو جاری کیا گیا تاہم اب وہ وفاقی محتسب نہیں رہیں، موجودہ وفاقی محتسب کو نوٹس کردیں وہ آکر بتا دیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ہائی کورٹ کے جج کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، اس کا کیا ہوگا؟ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین محتسب آکر بتادیں گے کہ وہ معاملہ چلانا چاہتے یا واپس لینا چاہتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائی کورٹ جج اور وفاقی محتسب دونوں نے ایک دوسرے کو توہین عدالت نوٹسز جاری کیے، عدالت نے وکیل وفاقی محتسب کو معاملے پر ہدایات لیکر جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ وفاقی محتسب کو خاتون کے خلاف ہراسمنٹ کی کارروائی پر ایکشن لینے سے سابق لاہور ہائی کورٹ جج سید منصور علی شاہ نے روک دیا تھا، وفاقی محتسب نے حکم امتناع پر جسٹس منصور علی شاہ کو توہین عدالت کے نوٹس اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

’26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ہی نہیں سکتی‘

انسداد دہشت گردی کے ایک کیس پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران وکیل منیر پراچہ نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کیس میں مزید کارروائی کی ضرورت نہیں ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ہی نہیں سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے، سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرق صرف یہ ہے کہ اب ازخود نوٹس آئینی بنچ میں چلے گا، یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے ہم اس ایشو کو کسی اور کیس میں سنیں گے جب کوئی آئے گا، عدالت نے مقدمہ نمٹا دیا۔

حکومت سندھ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حوالے سے کیا اسٹرکچر بنایا؟ جسٹس مظہر

لیڈی ہیلتھ ورکرز کی سندھ حکومت کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ ویڈیو لنک کے ذریعے آئینی بینچ کے روبرو پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ریگولیرائزیشن کردی گئی ہے، یہ مقدمہ 184 تین کے زمرے میں نہیں آتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیوں ریگرائزیشن کیا، بنیادی حقوق کا معاملہ نہیں؟ آپ بتائیں حکومت سندھ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حوالے سے کیا اسٹرکچر بنایا ہے، ہم آپ کا بیان ریکارڈ کرلیتے ہیں کہ تمام سروس فوائد ملیں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف اپنایا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد تو درخواست گزار نے تسلیم کیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے آج درخواست گزار کے وکیل اور اے او آر موجود نہیں، ان کو نوٹس جاری کررہے ہیں، اس نوعیت کے دیگر مقدمات کے ساتھ یکجا کرکے سنیں گے، آئینی بنچ نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

’عدالتی ملازمین سے متعلق رولز بنانا متعلقہ ہائی کورٹس کا کام ہے‘

عدالتی ملازمین کو اپیل کا حق دینے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولز بنانا متعلقہ ہائی کورٹس کا کام ہے، آرٹیکل 199 کی ذیلی شق 5 کے تحت رٹ دائر نہیں ہو سکتی، عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

ایل پی جی کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق کیس

ایل پی جی کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں 2 کمیشن بنائے گئے، پتا نہیں کمیشن کس اختیار کے تحت بنائے گئے۔

عدالت نے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے والے وکلا کو آئندہ سماعت پر سپریم کورٹ اسلام آباد آنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔

زمین پر کسی اور کی نظر ہے اور نظر بھی بری ہے، جسٹس مسرت ہلالی

اسلام آباد میں آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وکیل سی ڈی اے منیر پراچا نے مؤقف اختیار کیا وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر تعلیمی مقاصد کے لیے زمین ہم نہیں دے سکتے، ہم وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد آئی 17 میں جگہ دے سکتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے لگتا ہے زمین پر کسی اور کی نظر ہے اور نظر بھی بری ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کیوں نہ یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کو بھیج دیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے خواہش ہے کہ یونیورسٹی بنے اور لوگ پڑھ لکھ جائیں۔

درخواست گزار وکیل سلیمان بٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم بیرونی سرمایہ کار اس لیے نہیں لا رہے کہ آئیں، سرمایہ کاری کریں اور چلے جائیں؟ عدالت نے فریقین کو آپس میں معاملات حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 10 دن تک ملتوی کر دی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کوشش کریں کہ معاملات حل ہو جائیں۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2024
کارٹون : 14 نومبر 2024