حکومت، تاجروں کی رجسٹریشن بڑھانے کیلئے قانون میں ترمیم کرنے کو تیار
حکومت ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس قانون میں ترمیم کرنے جارہی ہے جس کے ذریعے تمام درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کے لیے یہ لازمی ہوگا کہ وہ اپنی مصنوعات رجسٹرڈ صارفین کو فروخت کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ تاجروں کو ٹیکس کے باقاعدہ نظام میں لایا جا سکے۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق مجوزہ ترامیم کا تعلق ’اپنے صارف کو جانیں‘ (کے وائی سی) ڈیجیٹل انوائس سسٹم سے ہے، جو تاجروں کو باقاعدہ ٹیکس دہندگان کے طور پر رجسٹر کرنے یا وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کی تاجر دوست اسکیم (ٹی ڈی ایس) سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ایک سینئر ٹیکس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے آرڈیننس کا مسودہ تیار کر کے وزیر اعظم کے دفتر کو بھیج دیا ہے۔‘ کابینہ کی منظوری کے بعد آرڈیننس کو نافذ کرنے کے لیے ایوان صدر کو بھیجا جائے گا۔
کے وائی سی کی شرائط محکمہ ٹیکس کو سیلز ریکارڈز کو ٹریس کرنے اور خریداروں کے ٹیکس کی تعمیل کا اندازہ لگانے کی اجازت دیں گی۔ عہدیدار نے کہا کہ ’اس سے ہمیں ان خریداروں کی شناخت کرنے میں مدد ملے گی جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں اور ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔‘
کے وائی سی اسکیم کا مقصد انفرادی دکانداروں کے بجائے بڑے خوردہ فروشوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے، انہیں تاجر دوست اسکیم کے تحت رجسٹر ہونے کی ترغیب دینا ہے۔ تاجر تنظیموں کی شدید مخالفت کی وجہ سے ٹیکس حکام کو تعمیل نہ کرنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ایف بی آر کا خیال ہے کہ نئے اقدامات نان فائلرز کی کیٹیگری کو ختم کرنے اور خریداری کو ٹیکس ریٹرن فائلنگ سے جوڑنے میں مدد اور تاجروں کو موجودہ ٹیکس نظام کے تحت ریٹرن فائل کرنے پر مجبور کریں گے۔
ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی ریٹرن جمع کرانے اور ٹیکس کی ادائیگیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ٹیکس کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے جاری کوششوں کے ایک حصے کے طور پر، ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں (جولائی تا اکتوبر) کے دوران خوردہ فروشوں سے ٹیکس کی مد میں 25.961 ارب روپے پہلے ہی جمع کر لیے ہیں۔ یہ گزشتہ سال کی اسی مدت جمع ہونے والے 14.087 ارب روپے کے مقابلے میں 11.874 ارب روپے یا 84.3 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
مزید برآں، رواں مالی سال کے چار ماہ میں گزشتہ مالی سال کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے خوردہ فروشوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ پہلے چار ماہ کے دوران 6 لاکھ سے زیادہ خوردہ فروشوں نے ریٹرنز جمع کرائے جو 200 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے، جبکہ مالی سال 23 میں اسی مدت کے دوران تقریباً 2 لاکھ نے ریٹرنز جمع کرائے تھے۔ ریٹرن فائلنگز میں یہ اضافہ بڑی حد تک تعمیل کو سخت کرنے کے لیے ایف بی آر کے مجوزہ اقدامات کی وجہ سے ہوا ہے، جنہیں متوقع طور پر آئندہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا۔
تاجروں کے ریٹرن کے ساتھ جمع ہونے والا ٹیکس بھی مالی سال 2023 کے چار ماہ میں 5.3 ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال 2024 کی اسی مدت میں 9.376 ارب روپے ہو گیا، جو 4.076 ارب روپے یا 76.9 فیصد کا اضافہ ہے۔
دوسری طرف، سیکشن ’236 جی‘ (ڈسٹری بیوٹرز، ڈیلرز اور ہول سیلرز کو فروخت پر ایڈوانس ٹیکس) کے تحت تھوک فروشوں اور خوردہ فروشوں سے ٹیکس کی وصولی رواں مالی سال کے چار ماہ میں 6.786 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 3.184 ارب روپے تھی۔
اسی طرح سیکشن ’236 ایچ‘ (خوردہ فروشوں کو فروخت پر ایڈوانس ٹیکس) کے تحت خوردہ فروشوں سے وصول کیا گیا ٹیکس رواں مالی سال کے چار ماہ میں بڑھ کر 9.799 ارب روپے ہو گیا، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں ارب روپے 5.603 تھا۔ یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 7.798 ارب روپے، یا 139 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
رواں سال یکم اپریل کو جاری کی گئی تاجر دوست اسکیم زیادہ سے زیادہ تاجروں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی، جو کہ تعمیل کرنے والے تاجروں کے لیے مراعات پیش کرتی ہے۔ تاہم اسکیم پر تعمیل محدود ہے اور تاجروں نے اسکیم کی کچھ شقوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اسکیم فی الحال 42 شہروں کے دکانداروں کا احاطہ کرتی ہے، لیکن اس میں شرکت کم رہی ہے۔
مجموعی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) میں 20 فیصد حصہ ڈالنے کے باوجود، خوردہ اور ہول سیل کے شعبے ٹیکس ریونیو میں صرف 4 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ اس تفاوت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کئی سالوں سے اس اہم شعبے کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
2019 سے، تاجروں کی رجسٹریشن کے لیے تین مختلف اسکیمیں متعارف کرائی جاچکی ہیں، لیکن سیاسی چیلنجز اور تجارتی برادری کی مسلسل مخالفت کی وجہ سے کوئی بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہوسکی۔