سیکیورٹی خدشات اور پاک چین تعلقات، آگے کیا ہونے والا ہے؟
پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مابین دو اہم مذاکرات جاری ہیں۔ ایک حکومت پاکستان کی جانب سے چینی پروجیکٹ اسپانسرز کو واجب الادا ادائیگیوں کی ری شیڈولنگ سے متعلق ہے جبکہ دوسرے مذاکرات پاکستان میں انتہاپسند حملوں کے تناظر میں چینی سرمایہ کاری اور شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ہیں۔
حالیہ برسوں میں چینی حکام کی جانب سے بیانات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ان کے لیے یہ کتنا اہم ہے کہ پاکستان میں رہنے اور کام کرنے والے چینی شہریوں کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔
حال ہی میں 15 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے موقع پر چینی وزیر اعظم لی چیانگ کے دورہ اسلام آباد کے بعد پاک-چین مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں چینی سرمایہ کاری اور عملے کے لیے ’مشترکہ طور پر ایک محفوظ ماحول پیدا کرنے‘ کی ضرورت پر بات کی گئی۔
اس بیان میں بھاری سفارتی زبان کا استعمال کیا گیا۔ تاہم یہ مشترکہ بیان چین کے دیگر بیانات کی نسبت زیادہ سخت نہیں تھا جیسا کہ ہم نے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے بیان پر چینی سفیر کا ردعمل دیکھا تھا کہ جنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان، چین کے لیے منفرد ہے اور حفاظتی خطرات کے باوجود یہاں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ اس سے قبل مارچ میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر چینی مزدوروں پر حملے کے بعد چین کی جانب سے دیے گئے بیانات بھی سخت نوعیت کے تھے۔
تاہم معاملہ اس سے کئی زیادہ سنگین ہے۔ مثال کے طور پر پیر کو دو اہم پیش رفت ہوئیں۔ ایک چینی وزارت خارجہ کی معمول کی پریس کانفرنس تھی جس میں برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے نمائندے نے خصوصی طور پر ’پاکستان میں چینی شہریوں پر حالیہ حملوں‘ سے متعلق سوال پوچھا جس کا چین نے سفارتی جواب دیا جو یہ تھا کہ ’چین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا‘۔
لیکن اسی روز کراچی میں پاکستانی حکام کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی جس میں انہوں نے 6 اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ کے باہر چینی شہریوں پر حملے کی مکمل تفصیلات میڈیا کو فراہم کیں۔ اس حملے میں دو چینی شہریوں سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
پریس کانفرنس میں فراہم کی گئیں تفصیلات میں بالترتیب حملے کا سبب بننے والے واقعات بتائے گئے، جوکہ کافی متاثر کُن تھے۔ آئی جی پولیس اور وزیر داخلہ سندھ کی میزبانی میں میڈیا بریفنگ کے ذریعے پاکستانی حکام نے ایک اہم پیغام پہنچایا اور وہ یہ تھا کہ ہم معاملے میں تہہ تک پہنچ رہے ہیں اور ہماری تحقیقات کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
اگلے روز رائٹرز نے ایک اسٹوری شائع کی جس میں لکھا گیا کہ ’بیجنگ، پاکستان پر زور ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے سیکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان بھیجنے کی اجازت دے‘۔ چین کی جانب سے یہ دباؤ کراچی حملے کے بعد ڈالا گیا اور رائٹرز کی اسٹوری میں کہا گیا کہ ’اس حملے نے چین کو اشتعال دلایا جس کے بعد چین نے مشترکہ سیکیورٹی انتظامات کے لیے باضابطہ طور پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے‘۔ اسٹوری میں ذرائع کے طور پر ’5 پاکستانی سیکیورٹی اور حکومتی افراد کو شامل گیا ہے جنہیں غیرمصدقہ مذاکرات کا علم تھا‘۔
اگلے روز فنانشل ٹائمز میں ایک اور مضمون شائع ہوا جو تائیوان کے دارالحکومت تائی پے اور اسلام آباد سے لکھا گیا۔ اس میں بھی وہی بات کی گئی۔ بیجنگ پاکستان میں سلامتی کی صورت حال سے ناخوش تھا اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے پاکستان میں اپنا سیکیورٹی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہا تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں فعال چینی سرمایہ کاری اور دیگر شعبہ جات کے اداروں کی انتظامیہ نے چینی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی حفاظت کریں۔ فنانشل ٹائمز نے متعدد چینی ایگزیکٹوز کا حوالہ دیا۔
کسی حد تک ان کی یہ درخواست سنی گئی۔ آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں موجود چینی سیکیورٹی انجینئرز پہلے ہی سیکیورٹی منصوبہ ترتیب دینا شروع کرچکے تھے جس میں مقامی گارڈز کو ہائر کرنا، ان گارڈز کے پس منظر کی تحقیقات اور ’معلومات اکٹھا کررہے تھے‘ لیکن چین کی حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ اس حوالے سے اپنے کردار کو وسعت دیں۔
گمان ہوتا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں اور ورکرز کو لاحق سلامتی کے مسئلے کو پاکستان کیسے سنبھال رہا ہے، اس حوالے سے چینی حکام کے مؤقف میں تبدیلی آئی ہے۔ اس سے پہلے رونما ہونے والے واقعات میں چین کے اپنے بیانات میں سیکیورٹی کی صورت حال پر ناراضی کا اظہار کیا اور تعلقات کے دیگر پہلوؤں کو نظرانداز کیا مگر اب معاملہ تبدیل ہوچکا ہے۔
مثال کے طور پر ایس سی او کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں ممالک نے تعلقات ’مضبوط، گہرے کرنے اور عملی تعاون کو فروغ دینے‘ سے متعلق گفتگو کی۔ اس اعلامیے میں کچھ ایسے شعبہ جات کا ذکر کیا گیا جن میں کام کرنے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستحکم ہوسکتے ہیں جیسے کہ ML-1 ریلوے اور قراقرم ہائی وے کی تصحیح وغیرہ جبکہ ان معاشی عوامل کی نشاندہی بھی کی گئی جو ان اہم پروجیکٹس کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
سیکیورٹی خدشات سے متعلق بھی چین کے لہجے میں تبدیلی دیکھی گئی جہاں وہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے وسیع تر منظرنامے کا حوالہ دیتا رہا۔ اسی طرح ہم نے پیر کو بھی دیکھا جب چین سے سیکیورٹی خطرات سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے دونوں ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دینے کی بات کی۔
پاک-چین کے باہمی تعلقات کی بات کی جائے تو وہ مختلف ہیں جیسا کہ رائٹرز اور فنانشل ٹائمز کے حالیہ مضامین میں ہمیں شواہد ملے، پاک-چین حکام کے درمیان آف دی ریکارڈ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے وہ سلامتی کی صورت حال پر بار بار بات کررہے ہیں اور چینی حکام پاکستان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے جامع کردار ادا کرے۔
اگر چین پاکستان میں اپنے سیکیورٹی ادارے تعینات کرتا ہے تو اس سے خطرات اور رسک میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں چینی سیکیورٹی اداروں کا کیا کردار ہوگا؟ کیا وہ اپنے اہلکار تعینات کریں گے؟ کیا وہ مسلح ہوں گے؟ وہ کیا شرائط ہوں گی جن کے تحت وہ اپنی قوت کا استعمال کرپائیں گے؟ کیا ان کے پاس نگرانی کرنے، انٹیلی جنس اکٹھا کرنے، مشتبہ لوگوں پر نظر رکھنے، انہیں حراست میں لینے یا ان سے تفتیش کرنے کے اختیارات ہوں گے؟ سب سے اہم یہ ہے کہ چینی سیکیورٹی اہلکاروں کی پاکستان میں تعیناتی سے ملک میں چینی شہریوں کی تعداد بھی زیادہ ہوجائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ زیادہ چینی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتے ہیں اور ان چینی اہلکاروں کی حفاظت کون کرےگا؟
پاکستانی حکام نے چین کو پاکستان میں اپنی سیکیورٹی فورسز کو تعینات کرنے کی اجازت نہ دے کر اچھا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ لگتا ہے کہ چین کو احساس ہے کہ پاکستان اپنے تئیں مسئلے کو حل کرنے کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
حکام باتیں کرتے ہیں، کام کرتے ہیں، اور مصروف دکھائی دیتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ اندر ہی اندر بڑھتا رہتا ہے اور وہ اسے نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وہ روش ہے جو معاشی مسائل کے لیے بھی اختیار کی جاتی ہے جس سے مسئلہ جڑ سے ختم نہیں ہوتا۔ حکومتی وسائل کی کمی، غیر ملکی زرمبادلہ کی ادائیگیوں میں رکاوٹیں، سرمایہ کاری کے لیے کم بچت و دیگر معاملات میں بھی ہمارا ملک یہی کرتا ہے۔ لیکن وقت ہے کہ ہم سلامتی کے مسئلے کو حل کریں۔ اور اب محض اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا کافی نہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔