بیجنگ کا پاکستان میں چینی شہریوں کی حفاظت کیلئے اپنی فورس تعینات کرنے پر اصرار
کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز پر خودکش دھماکے کے بعد بیجنگ نے پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے ہزاروں چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے ایک بار پھر اپنی فورس تعینات کرنے پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے کو چین نے ایک بڑی سیکیورٹی ناکامی قرار دیا تھا۔
پاکستان میں چینی مفادات پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ تھا جس میں پاکستان میں پاور پلانٹ پر کام کرنے والے 2 چینی انجینئرز سمیت 3 افراد ہلاک ہوئے تھے، چینی انجینئرز تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس پہنچے تھے۔
بیجنگ نے اپنے شہریوں پر حملے روکنے میں ناکامی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا اور پاکستان پر مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔
رائٹرز نے ان مذاکرات سے آگاہ پاکستان کے 5 سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع سے بات کی جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ تفصیلات بتائیں۔
مذاکرات میں شریک ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ چین نے ایک بار پھر پاکستان میں اپنی فورس تعینات کرنے پر زور دیا ہے تاہم اسلام آباد نے اب تک اس پر اتفاق نہیں کیا ہے۔
اہلکار کے مطابق اس حوالے سے بیجنگ نے اسلام آباد کو تحریری تجویز بھیجی ہے جو پاکستانی ایجنسیوں کو بھیج دی گئی ہے اور وہ اس کا جائزہ لیں گے، اس میں ایک شق کا ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت سیکیورٹی ایجنسیوں اور فوجی دستوں کو انسداد دہشت گردی کے مشنز میں مدد اور مشترکہ حملے کرنے کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین پر بھیجنے کی اجازت دینا شامل ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے چین یا پاکستان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم قائم کرنے پر تو اتفاق کرلیا ہے اور پاکستان کو سیکیورٹی سے متعلق اجلاس میں چینی حکام کی شرکت پر بھی اعتراض نہیں ہے۔
تاہم، چینی سیکیورٹی فورسز کو پاکستان کے اندر تعینات کرنے کے معاملے پر تاحال اتفاق نہیں ہوا۔
مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے بتایا کہ اسلام آباد نے بیجنگ سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے بجائے انٹیلی جنس اور سرویلنس سسٹم کی بہتری میں مدد فراہم کرے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ وہ مذاکرات سے لاعلم ہیں تاہم پاکستان میں چین کے منصوبوں، اداروں اور شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے اسلام آباد کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا جب کہ وزارتِ داخلہ اور وزارت منصوبہ بندی سے مسلسل رابطہ کرنے کے باوجود کوئی رد عمل نہیں آیا۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک نے مستقبل میں اس قسم کے حملے روکنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی پر اتفاق کیا ہے۔
سیکیورٹی ناکامی
چین نے کراچی ایئرپورٹ کے سگنل پر ہونے والے خودکش دھماکے کو سیکیورٹی ناکامی قرار دیتے ہوئے پاکستان میں اپنی سیکیورٹی فورس تعینات کرنے کے مطالبے کو دہرایا تھا۔
6 اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے لگ بھگ 100 کلوگرام بارود سے بھرا ٹرک چینی انجینئرز کی گاڑی سے ٹکرا دیا تھا، یہ ٹرک لگ بھگ 40 منٹ تک ہائی سیکیورٹی زون میں موجود رہا جس کے اطراف سیکڑوں سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
اس خود کش حملے کی تفتیش کرنے والے ایک سرکاری اہلکار نے اعتراف کیا کہ یہ بہت بڑی سیکیورٹی ناکامی تھی جس میں حملہ آور کو ’اندر سے مدد‘ حاصل تھی، کیونکہ حملے کے سہولت کار کو اس بات کا علم تھا کہ چینی انجینئرز کب پہنچیں گے اور کس روٹ سے ایئرپورٹ سے نکلیں گے۔
سیکیورٹی معاملات پر چین کی مایوسی
ایک سرکاری اہلکار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ حالیہ ملاقاتوں کے دوران چینی حکام نے سیکیورٹی معاملات پر مایوسی کا اظہار کیا اور پاکستان کو ثبوت فراہم کیے کہ انہوں نے سیکیورٹی پروٹوکولز کو نظر انداز کیا جن پر حالیہ ماہ میں دو بار اتفاق کیا گیا تھا۔
ان پروٹوکولز میں چینی باشندوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے علاوہ سیکیورٹی کی تعیناتی اور دیگر ایس او پیز شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان نے چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے ’اسپیشل پروٹیکشن یونٹ‘ بھی تشکیل دے رکھا ہے جس میں پولیس، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار شامل ہیں۔