اسلام آباد: وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف ٹیم سے ملاقات، قرض پروگرام کے حوالے سے تبادلہ خیال
پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے 7 ارب ڈالر قرض معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی۔
ڈان نیوز کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے روز ٹیکس شارٹ فال، تاجر آسان ٹیکس، توانائی شعبے، ایف بی آر اصلاحاتی پلان پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں آئی ایم ایف نے سولرائزیشن کو محدود کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کے علاوہ لیوی بھی 70 روپے کرنے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس شارٹ فال اور تاجر آسان ٹیکس سکیم کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم نے اجلاس کے دوران سخت سوالات بھی کیے۔
ایف بی آر نے ٹیکس شارٹ فال کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے ٹیکس شارٹ فال آیا، رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ ٹیکس وصولی ہدف سے 190 روپے کم ہوئی جبکہ تاجر دوست اسکیم کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔
اجلاس کے دوران ایف بی آر کے اصلاحاتی پلان پر بھی بریفنگ دی گئی، اس کے علاوہ ٹیکس شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے تجاویز دو سے تین روز میں فائنل کی جائےگی۔
اجلاس میں آئی ایف ایم کو توانائی شعبے کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی، علاوہ ازیں سولرائزیشن کو محدود کرنے پر بھی زور دیاگیا، عالمی مالیاتی فنڈ ٹیم کی جانب سے سولر نیٹ میٹرنگ کے نظام پر بھی سوالات کیے گئے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کے علاوہ لیوی بھی 70 روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے، عالمی مالیاتی ادارے کی تجویز ماننے کی صورت میں 16 نومبر سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا امکان ہے۔
قبل ازیں پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے 7 ارب ڈالر قرض معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’ کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات ناتھن پورٹر کی قیادت میں آئی ایم ایف ٹیم کے غیر متوقع دورہ پاکستان شروع ہونے کے ایک روز بعد کی گئی۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق محمد اورنگزیب کے علاوہ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، گورنرسٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام بھی ملاقات میں موجود تھے۔
آئی ایم ایف ٹیم نے غیر اعلانیہ دورہ ستمبر میں منظور کردہ 7 ارب ڈالر کے توسیع فنڈ سہولت ( ای ایف ایف) کے پہلے جائزے سے 4 ماہ قبل کیا۔
رائٹرز کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم کا یہ دورہ غیر معمولی ہے اور یہ 2025 میں ہونے والے پہلے جائزے سے کئی ماہ قبل کیا گیا۔
وزرات خزانہ اور آئی ایم ایف نے باضابطہ طور پر دورے کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
ایک روز قبل، پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف ٹیم کو رواں سال کے مقررہ کردہ بجٹ محصولات پر قائم رہنے اور انتظامی کارروائیوں کے ذریعے پہلے سہہ ماہی کے اہداف میں کمی کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آئی ایم ایف ٹیم نے پاکستانی حکام کے ساتھ آمدنی کی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کی۔
ذرائع کے مطابق مشن پاکستان میں15 نومبر تک پروگرام کے اہداف اور حالیہ پیش رفت کو جانچنے کے لیے قیام کرے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مشن قرض پروگرام کے پہلے جائزے کا حصہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ توسیع قرض پروگرام کےطریقہ کار کے تحت آئی ایم ایف اور پاکستان حکام کو سہہ ماہی جائزہ ملاقاتیں کرنی ہوں گی۔
دریں اثنا، قرض پروگرام کی ایک ارب ڈالر سے زائد دوسری قسط کے حصول کے لیے پہلا باضابطہ جائزہ رواں سال دسمبر کے آخر میں ہوگا۔
7 ارب ڈالر قرض کے حصول کو ایک ارب ڈالر کے مساوی 6 اقساط میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کے لیے سالانہ 6 سہ ماہی جائزہ اجلاس ہوں گے۔
ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو پہلے چار ماہ میں 190 ارب روپے محصولات کی کمی کے حوالے سے آگاہ کیا، مہنگائی میں کمی کے ساتھ مالیاتی خسارے میں اضافے نے آئی ایم ایف حکام کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے۔
آئی ایم ایف ٹیم کو نہ صرف مالیاتی بلکہ نجکاری پروگرام کے حوالے سے بھی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا ہے، جس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر کی ٹیم نے مشن کو اس ماہ کے آخر تک انتظامی اقدامات کے تحت حاصل ہونے والے نتائج اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف بی آر بات چیت میں پیش رفت کے بعد آئی ایم ایف سے منی بجٹ کے بجائے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی درخواست کرسکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں دونوں فریقین پروگرام کے کلیدی اہداف، خاص طور پر وفاقی محصولات، سرکاری ملکیت والے ادارے، بیرونی اور صوبائی مالیاتی خساروں اور آمدنی کے اقدامات کے حوالے سے بات چیت کریں گے تاکہ پہلے سہ ماہی جائزے سے قبل کارکردگی کے معیار میں کمی کوتاہیوں کی دوری کو یقینی بنایا جائے۔