’ذاتی معلومات لیک ہونے کے بعد مبینہ آن لائن ہراسانی‘، بھارتی صحافی نے تفصیلات بیان کردی
ایک آزاد صحافی اور خواتین کے حقوق کی محافظ رعنا ایوب نے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر فون نمبر لیک ہونے کے بعد مبینہ طور پر آن لائن ہراساں کیے جانے کی تفصیلات شیئر کردی۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں صحافی اور ایکٹیوسٹ طویل عرصے سے ہراساں کیے جانے کی شکایت کرتے آرہے ہیں اور ان پر تنقیدی صحافت کرنے والوں کو خاموش کرانے کا الزام ہے۔
نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست حکومت کی سخت ناقد رعنا ایوب کو بھارتی جنتا پارٹی کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی تفصیلات بتاتے ہوئے صحافی نے دعویٰ کیا کہ ایک ہندو قوم پرست کی جانب سے ’ایکس‘ پر ان کا نمبر پوسٹ کیا گیا جس کے بعد انہیں ویڈیو کالز، فحش پیغامات موصول ہوئے اور مسلسل کالز آتی رہیں۔
صحافی کا کہنا تھا وہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج ہونے سے قبل 11 ماہ تک ایک پولیس اسٹیشن کے چکر لگاتی رہیں۔
رعنا ایوب نے مزید کہا کہ انہیں 15 سال قبل لکھے گئے آرٹیکل پر ’ایک ہندو قوم پرست تنظیم‘ کی جانب سے ان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے کے لیے پیر صبح عدالت میں پش ہونا تھا۔
صحافیوں کی حفاظت کے لیے قائم کمیٹی ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے ) نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی صحافی کا نمبر انلائن لیک ہونا، گزشتہ ماہ منی پور میں رپورٹنگ کے دوران ان کا بارہا پیچھا کیا جانا اور انٹیلی جنس حکام کی جانب سے ان سے سوالات کرنا انتہائی پریشان کن ہے۔
رعنا ایوب نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ منی پور میں رپورٹنگ کے دوران پولیس اور انٹیلی جنس حکام نے ان کا ہر جگہ پیچھا کیا۔
رعنا ایوب نے دائیں بازو کی جانب سے ان کے امریکا منتقل ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کے دوستوں نے ملک یا صحافت چھوڑنے کا مشورہ دیا، کبھی کبھار وہ اس پر آمادہ ہونے کے لیے تیار ہوجاتی کیونکہ وہ ’شہید‘ نہیں ہونا چاہتیں۔
رعنا ایوب نے کہا کہ ’ صحافت چھوڑنا ان کے لیے کبھی بھی قابل قبول آپشن نہیں تھا اور نہ کبھی ہوگا۔’
خیال رہے کہ انسانی حقوق کے ماہرین نے 2022 میں بھارتی حکومت سے رعنا ایوب کے خلاف کیے جانے والے ’امتیازی سلوک‘ کو ختم کرنے پر زور دیا تھا۔
تاہم ایک ماہ بعد رعنا ایوب کو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے یورپ جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔