افغان طالبان آئندہ ہفتے پہلی بار اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس میں شرکت کریں گے
افغانستان کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کے حکام آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام شروع ہونے والی ایک بڑی موسمیاتی کانفرنس میں شرکت کریں گے، یہ پہلا موقع ہے کہ 2021 میں برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان انتظامیہ کسی عالمی سطح کی کانفرنس میں شرکت کررہی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والا کوپ 29 ماحولیاتی کانفرنس ان اعلیٰ ترین کثیر الجہتی تقریبات میں سے ایک ہوگی جس میں طالبان انتظامیہ کے حکام 20 سال تک نیٹو کی حمایت یافتہ افواج کے خلاف لڑنے کے بعد کابل کا انتظام سنبھالنے کے بعد شرکت کریں گے۔
اقوام متحدہ نے طالبان کو جنرل اسمبلی میں افغانستان کی نشست سنبھالنے کی اجازت نہیں دی ہے اور افغان حکومت کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے، جس کی بڑی وجہ طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا ہے کہ قومی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے حکام کوپ کانفرنس میں شرکت کے لیے آذربائیجان پہنچ چکے ہیں ، طالبان نے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ادارے کا انتظام سنبھال لیا تھا۔
گزشتہ 2 سال میں طالبان حکام نے دوحا میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں افغانستان پر منعقدہ اجلاسوں اور طالبان حکومت کے وزرا نے چین اور وسطی ایشیا میں منعقدہ فورمز میں شرکت کی ہے تاہم کوپ کے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن نے 2021 کے بعد سے افغانستان کی شرکت پر غور ملتوی کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ملک مذاکرات کا حصہ نہیں رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں افغان این جی اوز کو بھی موسمیاتی مذاکرات میں شرکت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہا ہے،
اس معاملے سے باخبر ایک سفارتی ذرائع نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ میزبان آذربائیجان نے افغانستان کے ادارہ ماحولیات کے حکام کو بطور مبصر کوپ 29 میں شرکت کی دعوت دی ہے، انہیں ممکنہ طور پر بات چیت میں حصہ لینے اور دو طرفہ ملاقاتیں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چونکہ طالبان کو اقوام متحدہ میں باقاعدہ طو پر افغانستان قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے افغان حکام مکمل رکن ممالک کی کارروائی میں حصہ لینے کی اسناد حاصل نہیں کرسکتے۔ آذربائیجان کے صدارتی دفتر نے اس پر تبصرے سے انکار کردیا۔
طالبان نے 12 سال سے زائدالعمر طالبات کے لیے اسکول اور جامعات بند کردی ہیں جبکہ رواں سال وسیع پیمانے پر اخلاقی قوانین بھی لاگو کیے گئے ہیں جن میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر چہرے کا پردہ لازمی قرار دیا گیا ہے اور محرم کے بغیر ان کے گھروں سے نکلنے پر سختی کردی گئی ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ حقوق نسواں کا اسلامی قوانین کے بارے میں اپنی تشریح کے مطابق احترام کرتے ہیں، افغانستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے، اچانک سیلابوں سے رواں سال سیکڑوں اموات ہوئیں اور زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے ملک کو کئی دہائیوں میں بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے، آبادی کی اکثریت پر مشتمل بہت سے کسانوں کوسنگین غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ حامیوں طالبان کی عالمی تنہائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صرف افغان عوام متاثر ہوئے ہیں۔
تنازعات سے متاثرہ ممالک کی بین الحکومتی تنظیم جی7 پلس کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری حبیب مایار نے کہا ہے کہ ’افغانستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو اپنی ضروریات میں واقعی پیچھے رہ گئے ہیں‘۔
مایار نے کہا کہ’یہ دوہری قیمت ہے جو وہ ادا کر رہے ہیں، توجہ کا فقدان ہے، عالمی برادری کے ساتھ رابطے کا فقدان ہے اور پھر انسانی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے’۔