خیبر پختونخوا سے شہد کی پہلی کھیپ ملائیشیا پہنچ گئی
مشرق وسطیٰ کی روایتی منڈیوں سے ہٹ کر خیبرپختونخوا سے سدر شہد کی پہلی کھیپ ملائیشیا پہنچ گئی، جس سے یہ امید بحال ہوئی ہے کہ آنے والے مہینوں میں صوبے میں شہد کی صنعت کو فروغ ملے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں پیدا ہونے والے اس نئے موقع سے خیبر پختونخوا کے شہد کی مکھیوں کے پالنے کے شعبے کو فروغ ملنے کی توقع ہے، جو قالین کی تیاری کے بعد دوسری سب سے زیادہ برآمدی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم کئی عوامل کی وجہ سے یہ ترقی پچھلے کئی سالوں سے رکی ہوئی ہے۔
خیبر پختونخوا میں سالانہ 15 سے 20 ٹن شہد پیدا ہوتا ہے، لیکن اس میں سے صرف ایک حصہ بنیادی طور پر کویت، سعودی عرب اور دبئی کو برآمد کیا جاتا ہے۔
یورپ کو شہد کی برآمد کے لیے کوئی براہ راست راستہ نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر پاکستانی شہد کو یمن میں دوبارہ پیک کیا جاتا ہے اور پھر اسے یمنی برانڈز کے تحت یورپ اور امریکا میں فروخت کیا جاتا ہے۔
وزیر تجارت جام کمال نے ترناب، خیبر پختونخوا سے سدر شہد کی کھیپ کی ملائیشیا روانگی کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی پاکستانی زرعی مصنوعات کو عالمی سطح پر نمایاں کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
وزارت تجارت کے بیان کے مطابق کوالالمپور میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ملائیشین کمپنیوں اور پاکستانی شہد تیار کنندگان کے درمیان رابطوں کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ پیشرفت گزشتہ اگست میں کراچی میں منعقد ہونے والی دوسری بین الاقوامی زراعت اور خوراک کی نمائش میں ایک معاہدے کے بعد سامنے آئی ہے۔
آل پاکستان ہنی مکھی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق خیبر پختونخوا ملک کا سب سے بڑا شہد پیدا کرنے والا ملک ہے، جو تقریباً 60 ہزار شہد کے فارمز کو سپورٹ کرتا ہے اور تقریباً 16 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
تاہم صنعت کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسوسی ایشن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس شعبے کو سرکاری صنعت کا درجہ دے، جس سے برآمد کنندگان کو بعض مقامی ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور دیگر مراعات تک رسائی دی جائے۔
ماہرین نے صوبے میں شہد کی مکھیوں کے کلسٹرز کے قیام اور بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے پراسیسنگ کی سہولیات میں سرمایہ کاری کی بھی سفارش کی ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت برآمد کے لیے تیار سہولیات کی کمی کی وجہ سے اربوں کا نقصان اٹھا رہا ہے۔
شہد کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز نے شہد بورڈ بنانے کی تجویز دی ہے جس میں ایسوسی ایشن اور محکمہ جنگلات شامل ہیں۔