6 مہینوں میں 18 آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدوں کا امکان
حکومت نے بگاس پر مبنی پاور پلانٹس کے ساتھ ٹیرف میں کمی کے لیے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1994 اور 2002 کی توانائی پالیسی کے تحت قائم کردہ 18 آزاد پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز) کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی ایز) پر نظرثانی کرنے میں 4 سے 6 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر توانائی اویس خان لغاری نے 5 آئی پی پیز کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدوں کو وقت سے پہلے ختم کردیا تھا جس سے سالانہ 70 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدرات قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی میں شامل وزیراعظم کے معاون خصوصی محمد علی نے بتایا کہ 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کرنے سے تقریباً سالانہ 60 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
محمد علی نے بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ جاری بات چیت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا حصہ ہے جس سے صنعتی اور کمرشل سرگرمیوں کو فائدہ پہنچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد گزشتہ ماہ 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں بگاس پر مبنی آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت مکمل کی گئی ہے جس کے تحت بین الاقوامی کوئلہ کی بنیاد پر مبنی قیمتوں کو امریکی ڈالر سے علیحدہ کیا گیا ہے۔
آئی پی پیز کا ڈالر کے ساتھ لین دین ختم کرکے اسے پاکستانی روپے کے ساتھ تبدیل کیا گیا ہے۔
محمد علی کا کہنا تھا کہ بگاس پر مبنی آئی پی پیز میں تبدیلی کی باضابطہ سمری وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیجی گئی ہے۔
محمد علی نے کمیٹی کو بتایا کہ دنیا میں کہیں بھی بگاس کی بنیاد پر بننے والی بجلی کو کوئلہ کی قیمت کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا اور وہ بھی ڈالرز میں تو بالکل نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ ممالک میں شوگر ملز کی آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے اب دیگر ممالک میں موجود ٹیرف کے اسٹرکچر کے مطابق ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ حکومت کی مقامی ایندھن پر انحصار بڑھنے اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کا دارومدار عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے ردوبدل پر ہے جو غیر ملکی زرمبادلے کے آؤٹ فلو کے نتیجے میں نکلتا ہے۔
محمد علی نے بتایا کہ 2019 میں توانائی کی بڑھتی ہوئی اور ناقابل خرید قیمتوں نے حکومت کو آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی اور ٹیرف کا جائزہ لینے پر مجبور کیا تھا، ان میں سے کئی آئی پی پیز 27 سے 30 فیصد تک منافع کمارہی تھیں۔
اس کے علاوہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) آئی پی پیز کے عدالت سے حکم امتناع کی وجہ سے ٹیرف کیلکولیشن کے لیے ہیٹ ریٹ اور افیشنسی ٹیسٹ کا تعین نہیں کرپارہی تھی۔
سینیٹر محسن عزیر نے بتایا کہ آئی پی پیز کی جانب سے پاور پلانٹس کو لگانے میں کی گئی سرمایہ کاری کو سرمایہ لگانے والوں نے 4 سال میں حاصل کرلیا تھا جبکہ کوئلے سے چلنے والے کچھ پلانٹس 2 سال میں اپنی پوری سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
محمد علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان آئی پی پیز کو تقریباً 13 سے 17 فیصد منافع دیا گیا جو کسی بھی دوسرے ملک سے دو گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو توانائی کے کاروبار سے پیچھے ہٹ کر دوسرے ممالک کی طرح توانائی مارکٗیٹوں کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹاسک فورس کی 1994 اور 2002 سے قائم کی گئی سرکاری ملکیت والے پاور پلانٹس کے علاوہ آئی پی پیز کے ساتھ تیسرے مرحلے میں بات چیت جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا مرحلہ اگلے 3 سے 6 ماہ تک مکمل ہوجائے گا۔
سینیٹر محسن عزیر اور کمیٹی کے دیگر ممبران نے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے ذریعے بچت حاصل کرنے پر ٹاسک فورس کو سراہا، کمیٹی ممبران کا خیال ہے اس سے عوام پر بوجھ کم ہوگا۔
کمیٹی نے سینیٹر ایمل ولی خان کی جانب سے خیبر پختونخوا میں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی جانب سے بجلی کے بلوں میں آئی پی پی کی لاگت کو شامل کرنے کے حوالے سے اٹھائے گئے ایک مسئلے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
پاور ڈویژن کے مشیر خاص ارشد مجید محمند نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمت کا تعین توانائی کے متعدد ذرائع کی بنیاد پر کیا اور ملک بھر میں بجلی کے نرخ یکساں ہیں۔