جمہوریت کو بادشاہت میں تبدیل کردیا، حکومت مرضی کے جج لانا چاہتی ہے، بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ آج جمہوریت کو بادشاہت کی طرف دھکیلا گیا، حکومت من پسند ججوں کو تعینات کرکے مرضی کے فیصلے کروانا چاہتی ہے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت کو بادشاہت کی طرف دھکیلا گیا، پارلیمان کو ربڑ اسٹیمپ بنایا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے ایوان اور آئین کو بے معنی کیا جارہا ہے، ملکی جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار ختم کیا جارہا ہے، پاکستانی عوام ہر اس قانون سازی کو رد کرتی ہے جو عوام کو بادشاہت کی طرف لے کر جائے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ حکومت کو ہمیشہ کی طرح آج بہت جلدی تھی، جب سے یہ حکومت بنی ہے آج تک کوئی ایسا قانون منظور نہیں کیا گیا جو قانون کے مطابق متعارف کرایا گیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر قانون کے علاوہ حکومتی وزرا کو آج منظور ہونے والے قوانین کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوگا، تاخیر سے شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں پہلے ایک سپلیمنٹری ایجنڈا آیا جس میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کو 17 سے 34 کیا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا حکومت سپریم کورٹ میں مرضی کے ججز لانا چاہتی ہے تا کہ عدالتوں کو اپنی گرفت میں کیا جاسکے، آج ججز کی تعداد بڑھانے کا کوئی جواز نہیں تھا، یہ لوگ ملک قیوم عدالت بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے کرپشن کے کیسز ختم ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمڈ فورسز سے متعلق قانون سازی کے بارے میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا، ہم تمام اداروں کے سربراہان کی عزت کرتے ہیں لیکن قانون سازی کا یہ طریقہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، کسی بھی فرد کو مدت ملازمت میں توسیع کا حق نہیں حاصل ہونا چاہیے، کسی کی مدت ملازمت بڑھانا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، ہمیں اس پر بحث کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ آج (4 نومبر) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کرلیے۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے ایوان میں پیش کردہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت بڑھانے کے بل ایوان بالا نے منظور کر لیا۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں مزید ترمیم، پاکستان نیول ایکٹ 1961 میں مزید ترمیم اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کا بل بھی منظور کر لیا گیا، قانون سازی سے سروسز چیف کی مدت ملازمت 3 سے بڑھ کر 5 سال ہوگی۔
سینیٹ سے منظورشدہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے متن کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا، اس کا اطلاق آرمی چیف کی تقرری کی مدت، دوبارہ تقرری یا توسیع پرنہیں ہوگا۔
اپنی مدت میں آرمی چیف بطور پاکستان آرمی کے جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔