سندھ اسمبلی اجلاس: صوبے میں آئینی بینچ کے قیام کی قرارداد کثرت رائے سے منظور
سندھ اسمبلی نے صوبے میں آئینی بینچ کے قیام کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی، تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد ارکان سندھ اسمبلی اور جماعت اسلامی نے قرارد کی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
ڈان نیوز کے مطابق سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر انتھونی نوید کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 202 (اے) کے تحت صوبائی آئینی بینچ کے قیام کی قراداد وزیر پارلیمانی امور ضیا لنجار نے ایوان میں پیش کی۔
قرارداد کی حمایت میں 123 ارکان نے ووٹ دیا، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین نے نے کھڑے ہوکر قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
تاہم ایم کیو ایم کی جانب سے قرارداد پر اعتماد میں نہ لیے جانے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا، جبکہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ارکان نے قرارد کی مخالفت کی۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئینی بینچ کے قیام کے بعد عوام کو جلد انصاف ملے گا۔۔
دریں اثنا، ایوان میں منشیات کے کھلے عام استعمال کے حوالے سے پوچھا گیا، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ منشیات کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، والدین اپنے بچوں کے بدلتے رویوں پر نظر رکھیں۔
پس منظر
واضح رہے کہ ایوان بالا (سینیٹ) کے بعد 21 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیمی بل ایوان زیریں (قومی اسمبلی) سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہو گیا تھا۔
ہائی کورٹس میں آئینی بینچ کے قیام کے لیے ایک نیا آرٹیکل 202 اے بھی آئین میں شامل کیا گیا ہے۔
اس آرٹیکل کی شق (ون) میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں ہائی کورٹ کے ججز کو شامل کیا جائے گا، ان ججز کی تعیناتی وقتا فوقتاً جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گی، جیسا کہ آرٹیکل 175 اے کی شق 5 میں بیان کیا گیا ہے۔
شق 2 کے تحت مذکورہ بالا شق 1 میں نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا سربراہ ہوگا۔
شق 3 کے مطابق آئینی بینچ کے علاوہ ہائی کورٹ کا کوئی دوسرا بینچ آرٹیکل 199 کی شق 1 کے پیراگراف (اے) اور پیراگراف (سی) کے ذیلی پیراگراف (آئی) کے تحت ہائی کورٹ کو حاصل دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کرے گی۔
آرٹیکل 199 کا ذیلی پیراگراف (آئی) ہائی کورٹس کو یہ اختیار دیتا ہے ’وہ عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے وفاق، صوبے یا مقامی اتھارٹی کے معاملات سے متعلق کام کرنے والے کسی بھی شخص کو ہدایت دے کہ وہ ایسا کچھ کرنے سے باز رہے جس کی اسے قانون اجازت نہیں دیتا، یا اسے ایسا کچھ بھی کرنے کی اجازت دے جو قانون کے مطابق کرنا ضروری ہے‘۔
پیراگراف (سی) ہائی کورٹس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ’کسی بھی شخص یا حکومت سمیت کسی بھی اتھارٹی کو ایسی ہدایات جاری کرے جو اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کسی بھی علاقے میں طاقت کا استعمال یا پھر کوئی کام کررہی ہو جو آئینی بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے لازم ہو‘۔
شق 4 کے مطابق آئینی بینچوں کے سربراہ اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے نامزد کردہ بینچ اس طرح کے معاملات کی سماعت کرے گا۔
شق 5 کے تحت آرٹیکل 199 کے پیراگراف (اے) اور (سی) کے ذیلی پیراگراف (1) کے تحت 26ویں ترمیم کے نفاذ سے پہلے ہائی کورٹس میں زیر التوا درخواستیں فوری طور پر آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی، ان کیسز کی سماعت اور فیصلہ صرف شق 3 کے تحت تشکیل دی گئی بینچ ہی کریں گے۔