• KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:29pm Maghrib 5:06pm
  • ISB: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm
  • KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:29pm Maghrib 5:06pm
  • ISB: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm

قومی اسمبلی: فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 کرنے کے بل منظور

شائع November 4, 2024 اپ ڈیٹ November 5, 2024
— فائل فوٹو: اے ایف پی
— فائل فوٹو: اے ایف پی

قومی اسمبلی نے تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کرلیے۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔

ڈان نیوز کے مطابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ججز کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجرترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیے، مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کے ترمیمی بلز وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کیے،اپوزیشن کی فلک شگاف نعرے بازی کے دوران ترمیمی بلز کی شق وار منظوری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کی کارروائی کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔


مندرجہ ذیل 6 بل منظور کیے گئے ہیں:

  • سپریم کورٹ نمبر آف ججز (ترمیمی) بل، 2024
  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر (ترمیمی) بل، 2024
  • اسلام آباد ہائی کورٹ (ترمیمی) بل، 2024
  • پاکستان آرمی (ترمیمی) بل، 2024
  • پاکستان ایئر فورس (ترمیمی) بل، 2024
  • پاکستان نیوی (ترمیمی) بل، 2024

اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس 2 گھنٹے 40 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا جس کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا ترمیمی بل 2024 اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، وزیر قانون نے کہاکہ عدالتوں میں طویل عرصے سے مقدمات التوا کا شکار ہیں،اس لیے ہم ججز کی تعداد بڑھا کر 34 کر رہے ہیں۔

وزیر قانون نے مزید کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی بینچز کے قیام کے لیے ججز کی ضرورت تھی، بار کی باڈیز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی طویل عرصے سے اس بات کا مطالبہ کررہی تھی۔

اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 کی جارہی ہے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ضرورت کے مطابق ججز کی تعداد میں اضافہ کرسکے گا، ہوسکتا ہے پہلے مرحلے میں ہمیں 6 یا 8 ججز کی ضرورت پڑے، وقت کے ساتھ یہ نمبر بڑھتا گھٹتا رہے گا، ہم نے اس فیصلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان پر چھوڑ دیا ہے۔

بعدا زاں وزیر قانون نے اسلام آباد ہائیکورٹ قانون 2010 میں ترمیم کا بل اسلام آباد ہائیکورٹ ترمیمی بل 2024 پیش کیا جس کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کی تجویز پیش کی گئی، وزیر قانون نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد زیادہ ہے، اس لیے ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کی جارہی ہے، جس کے بعد ایوان نے اس ترمیمی بل کی بھی منظوری دے دی۔

ترمیمی بلز کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آمنے سامنے آگئے، دونوں جانب سے ارکان نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑلیے، حکومتی اراکین نے وزیراعظم کی نشست کو گھیرے میں لے لیا، اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا،اپوزیشن اراکین کے ایوان میں ’نونو‘ کے نعرے لگائے اور ترمیمی بلوں کی کاپیاں پھاڑدیں۔

جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا

بعدازاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کا بل پیش کیا، جسے ایوان کثرت رائے سے منظور کرلیا، بعدازاں وزیر دفاع نے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کا بل پیش کیا، بل کے تحت پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔ بعدازاں ایوان نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2024 بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

علاوہ ازیں وزیر دفاع نے پاکستان ایئرفورس ایکٹ ترمیمی بل 2024 اور پاکستان نیوزی ایکٹ ترمیمی بل 2024 ایوان میں پیش کیے، قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شور شرابے اور شدید نعرے بازی کے دوران کثرت رائے سے تمام بلوں کی شق وار منظوری دے دی۔

’آج جمہوریت بادشاہت میں تبدیل ہوگئی‘

دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں قانون سازی کی مذمت کی ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’ آج جمہوریت بادشاہت میں تبدیل ہوگئی ہے’۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے کہا کہ ’ فارم 47 کی پیداوار شہباز حکومت کا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں رد و بدل کرنا ملک اور مسلح افواج کے لیے اچھی بات نہیں ہے’۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024