پاکستان میں انسداد پولیو مہم غلط معلومات، دہشتگردوں کے حملوں کے باعث مشکلات سے دوچار
پاکستان میں پولیو کے خلاف مہم عسکریت پسندوں کے حملوں اور غلط معلومات کے باعث مشکلات کا شکار رہی ہے تاہم رضاکار اور ہیلتھ ورکرز اس کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان اور افغانستان دنیا کے واحد ممالک ہیں جہاں وائرس اب تک پھیلا ہوا ہے جبکہ وائرس 5 سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے اور کبھی کبھار انہیں زندگی بھر کے لیے معذور کردیتا ہے۔
پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، رواں سال اب تک 45 کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ 2023 میں صرف 6 اور 2021 میں صرف ایک کیس سامنے آیا تھا۔
گزشتہ ہفتے پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو دھماکے سے نشانہ بنانے کے نتیجے میں 5 بچوں سمیت 7 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ چند دن قبل 2 پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔
ماضی میں مذہبی انتہاپسندوں نے ویکسین میں سور کے گوشت اور شراب کی ملاوٹ کے دعوے کیے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے پولیو کے قطروں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح 2011 میں پاکستان میں امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے اس وقت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے جعلی ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا تھا جس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا تھا۔
حال ہی میں، عسکری تنظیموں نے ویکسین ٹیموں کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔
2021 میں پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت واپس آنے کے بعد پاکستان میں حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ اسلام آباد نے دہشت گردوں کا افغانستان سے سرگرم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
پشاور کے ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ ’ ان کے علاقے میں تقریباً آدھے سے زیادہ والدین پولیو کے قطرے پلانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، وہ اسے مغرب کی ایک سازش سمجھتے تھے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ویکسین کے متعلق لوگوں میں اگاہی نہیں تھی، اگر یہ وائرس ہماری وجہ سے پھیل رہا ہے تو نہ صرف ہم خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ہم اسے پوری کمیونٹی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
ماضی میں پولیو ویکسین کے خلاف بعض مذہبی رہنما جنہیں پاکستان میں بے پناہ اثرورسوخ حاصل ہے، اب والدین کو قائل کرنے کی مہم میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے ایک امام طیب قریشی کا کہنا تھا ’پاکستان میں تمام مذہبی رہنما اور علما نے پولیس ویکسین سے متعلق پھیلائی جانے والی افواہوں کو رد کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ’ وہ لوگ جو پولیو ٹیمز پر حملہ کرتے ہیں ان کا اسلام اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں۔’
دریں اثنا، پشاور کے علاقے پانم ڈھیری میں پولیو سے متاثرہ اسمٰعیل شاہ بچوں کو ویکسین پلانے ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ہیں جبکہ ان کی معذوری ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔
35 سالہ اسمٰعیل شاہ نےکہا کہ’ میں نے اپنے بچپن میں ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو اس بیماری کے خلاف لڑوں گا جس نے مجھے معذور کیا۔’
اسمٰعیل شاہ ان 4 لاکھ رضاکاروں اور ہیلتھ ورکرز میں سے ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے مختلف خاندانوں میں ویکسین کے محفوظ ہونے کے حوالے سے اگاہی پھیلائی ہے۔
ان کا ہدف 4 کروڑ 50 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچانا ہے تاہم یہ آسان کام نہیں ہے۔