لاہور: نجی کالج میں لڑکی کے ریپ کی جھوٹی خبر پھیلانے والی ٹک ٹاکر کا جسمانی ریمانڈ منظور
انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پنجاب کالج میں مبینہ زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کی والدہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی ٹک ٹاکر سارہ خان کو 6 روزہ جسمانی ریمانڈ پر گلبرگ پولیس کے حوالے کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے سارہ خان کو اے ٹی سی عدالت میں پیش کیا اور 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمہ نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں انہوں نے متاثرہ لڑکی کی ماں ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ ویڈیو اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ بھی شیئر کی جو تیزی سے وائرل ہوگئی جس کی وجہ سے تنازع میں اضافہ ہوا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مشتبہ ٹک ٹاکر پر جھوٹا دعویٰ کرنے، حکام کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانے اور تشدد کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اے ٹی سی جج منصور علی گل نے سارہ خان کا 6 روزہ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے کہا کہ ملتان سے تعلق رکھنے والی کراچی کی رہائشی سارہ خان دن بھر پولیس تحویل اور رات عدالتی تحویل میں رہیں گی۔
لاہور کے نجی کالج میں ریپ کے دعوؤں کا کوئی ثبوت نہیں، ایچ آر سی پی
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کے مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ مشن نے کہا ہے کہ فرانزک شواہد یا قابل اعتماد شہادتوں کے بغیر ان الزامات کی تصدیق ناممکن ہے کہ گزشتہ ماہ لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
فیکٹ فائنڈنگ مشن نے پنجاب کالج کیمپس 10 میں طلبا میں شکوک و شبہات اور عدم اعتماد میں اضافہ کرنے والے واقعات کے ایک سلسلے کا ذکر کیا جن میں ریپ کے غیر مصدقہ الزامات لگانے والی سوشل میڈیا پوسٹس، حکومتی نمائندوں کے متضاد بیانات (جنہوں نے ابتدائی طور پر ان دعووں کی تائید کی اور بعد میں انکار کیا) جب کہ کالج انتظامیہ کی جانب سے تاخیر سے ردعمل شامل تھا۔
مشن نے 14 اکتوبر کو کیمپس 10 میں مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بننے والی متاثرہ لڑکی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے والے احتجاجی طلبہ کے خلاف پولیس کی طرف سے ’غیر متناسب طاقت‘ کے استعمال کی مذمت کی۔
مشن نے کہا کہ آن لائن پوسٹس کے مزید تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر جماعتوں نے اپنی سوشل میڈیا کے ذریعے طلبہ کے بیانیے کا فائدہ اٹھایا ہوگا۔
مشن نے مشاہدہ کیا کہ طلبہ کے احتجاج نے کیمپس کی سیکیورٹی، ہراساں کرنے کے مبینہ واقعات اور کالج انتظامیہ اور پولیس پر عدم اعتماد کو اجاگر کیا، مشن کا ماننا ہے کہ طالب علموں کے غصے کی شدت کو صرف غلط معلومات کے کی وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
مشن نے اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں میں کیمپس 10 کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی فارنسک جانچ کرنے کی تجویز دی اور مظاہرین کے خلاف تشدد کے لیے علاوہ مشتبہ شخص کو ایف آئی آر کی عدم موجودگی میں حراست میں لینے پر پولیس پر تنقید کی۔
تاہم مشن کا ماننا ہے کہ کیمپس میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے خدشات کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور تمام کیمپسوں میں موثر انسداد ہراسانی کمیٹیاں قائم کی جانی چاہئیں۔
واقعہ کا پس منظر
واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔
پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔
اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔