• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

پی آئی اے کی نجکاری، اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ آئندہ ماہ متوقع ہے، محمد اورنگزیب

شائع October 24, 2024
فائل فوٹو: اے ایف پی
فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے تاخیر کا شکار پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن(پی آئی اے) کی نجکاری اور اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی آؤٹ سورسنگ دونوں کوآئندہ ماہ نومبر میں حتمی شکل دینے کے لیے پرامید ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق رواں سال کے اوائل میں عہدہ سنبھالنے والے محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں اے ایف پی سے گفتگو کی جہاں وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے موجود ہیں۔

اس سے قبل اپریل میں اے ایف پی کے ساتھ ایک سابقہ ​​انٹرویو کے دوران محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ حکومت کی زیر ملکیت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری جون 2024 تک مکمل ہو جائے گی۔

بدھ کے روز اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ نجکاری کے عمل میں پانچ ماہ کی تاخیر دو عوامل کی وجہ سے کم ہے جس میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانا اور پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے فریقین کے حوالے سے مناسب احتیاط برتنا شامل ہے۔

میکرو اکنامک عوامل کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی غیرملکی یا یہاں تک کہ کوئی ایسا مقامی سرمایہ کار آتا ہے جو کافی رقم لگانے جا رہا ہے تو وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ یہاں فاؤنڈیشن موجود ہو۔

وزیر خزانہ اورنگزیب نے کہا کہ پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ دونوں کے ممکنہ بولی دہندگان کی جانچ پڑتال کی بھی ضرورت ہے اور یہ بھی تاخیر کا ایک سبب ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے بالآخر کابینہ نے ہی ٹائم لائنز میں توسیع کی منظوری دی ہے تاکہ لوگ اپنی بولیاں جمع کرانے سے پہلے اپنے طور پر احتیاط سے کام لیتے ہوئے ساری جانچ مکمل کر لیں۔

انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان موجودہ منافع اور ڈیویڈنڈ کی ادائیگیوں میں پیچھے تھا اور میکرو اکنامک استحکام پر پیش رفت کے بعد حکومت نے اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے۔

پاکستان گزشتہ سال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا کیونکہ 2022 کے مون سون میں شدید بارشوں اور سیلاب اور کئی دہائیوں کی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی بدحالی کے سبب پیدا ہونے والی سیاسی افراتفری کی وجہ سے معیشت سکڑ گئی تھی۔

ملک میں افراط زر کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کی سطح بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی زرمبادلہ کو محفوظ رکھنے کے لیے درآمدی پابندیوں سمیت متعدد سخت اقدامات کیے تھے جس کے بعد اب افراط زر کی شرح 30 فیصد سے بھی زائد کمی کے بعد سات فیصد سے بھی نیچے آ گئی ہے۔

گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی تھی اور 1958 کے بعد پاکستان نے 24ویں مرتبہ عالمی ادارے سے معاہدہ کیا ہے۔

محمد اورنگزیب نے اس موقع پر ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور پاکستانی روپے کے استحکام کے حوالے سے پیشرفت کا ذکر بھی کیا جس میں 2020 سے اب تک امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 65 فیصد کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مئی اور جون میں میکرو اکنامک استحکام اور ملک کے مالی ذخائر میں اضافے کی بدولت ہم نے اپنے موجودہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا مجموعی عوامی قرضہ اس وقت جی ڈی پی کا 69 فیصد ہے، یا تقریباً 258 ارب ڈالر ہے۔

پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدے کا انحصار سرکاری اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے اور ملک کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر ہے۔

محمد اورنگزیب نے اے ایف پی کو بتایا کہ تینوں بڑے مسائل کے درمیان ایک ہی موضوع تھا، ٹیکس، توانائی، سرکاری ادارے، ان میں رساؤ، چوری اور کرپشن ہے اور ہمیں ان سب سے نمٹنا ہے۔

لیکن انہوں نے ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے میں حکومت کی عدم سنجیدگی کی میڈیا رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ مالی سال میں ٹیکس کی وصولی میں 29 فیصد اضافہ ہوا تھا اور موجودہ مالی سال میں اس میں مزید 40 فیصد اضافے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

24 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک میں 2022 میں صرف 52 لاکھ لوگوں نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے تھے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کر رہے، انہیں اس سادہ وجہ سے ادائیگی شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی اب بس ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکچرنگ صنعت کی بس ہو چکی ہے اور وہ مزید ٹیکس ادا نہیں کر سکتے۔

اس موقع پر ریئل اسٹیٹ، ریٹیل، ریٹیل ڈسٹری بیوٹرز اور زراعت کے شعبوں پر ٹیکس لگانے کا عندیا دہتے ہوئے کہا کہ حکومت معیشت کے بعض شعبوں پر ٹیکس لگانے اور بہتر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024