نئے چیف جسٹس کے انتخاب نے قانونی برادری کو تقسیم کر دیا
جسٹس یحییٰ آفریدی ہفتہ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے تاہم ان کے انتخاب پر ملک بھر میں قانونی برادری منقسم ہے جب کہ بعض باڈیز نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ آئینی ترامیم پر ان کی مخالفت ایک بھرپور تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد (جس میں حکومت نے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سنیارٹی کے اصول کو ختم کردیا)، خصوصی پارلیمانی کمیٹی جسٹس یحییٰ آفریدی کو نیا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کرنے کے بعد نام وزیراعظم کو ارسال کیا۔
جس کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے بدھ کو جسٹس یحییٰ آفریدی کو نئے چیف جسٹس کے طور پر تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے ایک روز بعد نئے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب ہفتہ کو ایوان صدر میں ہوگی جس میں 300 کے قریب مہمانوں کی شرکت کا امکان ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی اپنی تقرری کے فورا بعد موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیمبر میں گئے، جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں چیف جسٹس منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔
بعد ازاں، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی اور انہیں نامزدگی پر مبارکباد دی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بھی ان سے ملاقات کی۔
دوسری جانب، چیمبر ورک میں مصروف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کا الوداعی فل کورٹ ریفرنس کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ جو 26 ویں ترمیم نہ ہونے کی صورت پہلے کے وضح کردہ طریقہ کار کے مطابق چیف جسٹس بن جاتے، وہ فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکیں گے کیوں کہ اہل خانہ کے ہمراہ آج عمرہ پر روانہ ہورہے ہیں۔
’قانونی برادری میں تقسیم‘
اگرچہ قانونی برادری کے بہت سے لوگ ’آئینی پیکیج‘ سے خوش نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک کے امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اس معاملے پر وکلا برادری بھی تقسیم دکھائی دیتی ہے۔
ایک وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کیا تو قانونی برادری متحد تھی جس کے نتیجے میں تمام معزول ججوں کی بحالی ہوئی لیکن اس بار وکلا برادری میں واضح تقسیم ہے کیونکہ 26 ویں ترمیم کی منظوری پر دونوں بڑے گروہ منقسم ہیں۔
عاصمہ جہانگیر مرحومہ سے منسلک آزاد پینل کے سربراہ احسن بھون نے ڈان سے بات کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس کی تقرری کو سراہا، ان کا کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں تھی، وہ ایک غیر متنازع جج ہیں اور ان کی تقرری ایک مثبت پیش رفت ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر احسن بھون نے کہا کہ جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر انتہائی قابل جج ہیں، پارلیمانی کمیٹی کو آئین میں طے شدہ معیار کے مطابق اگلے چیف جسٹس کی تقرری کا مینڈیٹ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر شہزاد شوکت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو بہترین ججز میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تقرری مناسب آئینی طریقہ کار کی پیروی کرتی ہے۔
’پوری عدلیہ کو سزا دی جا رہی ہے‘
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی کی سزا پوری عدلیہ کو دی جا رہی ہے، وکلا نے آئینی ترامیم کو مسترد کردیا۔
حامد خان نے نامزد چیف جسٹس کو مشورہ دیا کہ وہ اس وقت عہدہ قبول کرنے کے بجائے اپنی باری کا انتظار کریں، اگر وہ موجودہ حالات میں اس کردار کو قبول کرتے ہیں تو لوگ انہیں منفی نظر سے دیکھیں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تیسرے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس مقرر کرنا عدلیہ کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے ملک میں حالیہ پیش رفت کو ’سیاہ ترین‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترامیم آئین اور عدلیہ پر حملہ ہیں۔
انہوں نے عدالتی تقرریاں سنیارٹی کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلا صرف سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کے طور پر تسلیم کریں گے۔
پاکستان بار کونسل کے رکن اشتیاق اے خان نے کہا کہ یہ ترامیم آئینی نہیں بلکہ ’مارشل لا‘ کی ایک شکل ہیں، انہوں نے حکمراں جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسد منظور بٹ نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حامد خان کی سربراہی میں پروفیشنل گروپ کے رہنما بٹ نے کہا کہ 26 ویں ترمیم آئینی ترمیم کے بجائے سیاسی تھی۔
کراچی اور سندھ بار کا اظہار خیر مقدم
کراچی اور سندھ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جسٹس یحییٰ آفریدی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ عدالتوں کی آزادی، ساکھ اور سالمیت کو بحال کریں گے، جنہیں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔
کراچی بار نے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کو بائی پاس کرنے کے فیصلے کی بھی مذمت کی اور اس ’ناانصافی‘ کے خلاف ہر فورم پر مزاحمت کرنے کا عہد کیا۔
تاہم سندھ بار کونسل نے جسٹس آفریدی کی تقرری کو عدلیہ اور قوم کے لیے ایک ’بڑا فائدہ‘ قرار دیا ہے۔
بلوچستان کے وکلا
بلوچستان میں وکلا تنظیموں کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں جسٹس یحییٰ آفریدی سے کہا گیا ہے کہ وہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہ کریں اور کہا کہ وہ صرف جسٹس منصور علی شاہ کو اگلے چیف جسٹس کے طور پر قبول کریں گے۔
یہ بیان بلوچستان بار کونسل، پاکستان بار کونسل، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن سمیت دیگر کی جانب سے جاری کیا گیا۔ جس میں مزید کہا گیا ہے کہ وکلا کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی پہلے ہی آئینی ترمیم کو مسترد کر چکی ہیں۔