آئینی ترمیم منظور: ’پاکستان میں عوامی حقوق سے زیادہ پارلیمنٹ کی نشست کی اہمیت ہے‘
میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ میں اپنی تحریر کا آغاز روایتی جملوں سے کروں اور اتوار کو مجھے یہ موقع مل ہی گیا۔ ’تادمِ تحریر‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو عموماً ایسے رپورٹرز استعمال کرتے ہیں جو کسی ایسی اسٹوری پر کام کررہے ہوں جس میں تیزی سے پیش رفت ہورہی ہو جبکہ اس کے برعکس کالم تحریر کرنے والے سُست مصنفین اس کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن بلآخر بےشمار مضامین لکھنے کے بعد ناداں خواہشات بھی پوری ہو ہی جاتی ہیں۔
تو چلیے آغاز کرتے ہیں۔ تادمِ تحریر عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے مقصد کے تحت 26ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کرلیا گیا تھا۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں نے اسے میثاقِ جمہوریت اور خودمختاری جیسے سنہرے الفاظ کا لبادہ اوڑھا دیا لیکن درحقیقت یہ ایسے لوگوں کو اختیارات دینے کی کوشش تھی جن کا نام نہیں لیا جاسکتا۔
اگرچہ قانونی ماہرین اس کے حوالے سے بہتر بتا سکتے ہیں لیکن میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس نئی ترمیم پر تبصرہ کروں گی جسے منظور کرنے میں پارلیمنٹ کو چند ہی گھنٹے لگے۔ ہمارے اراکین پارلیمنٹ کا بحث کرنے کا تصور اتنا ہی نفیس ہے جتنا کہ ہم صحافی ٹی وی ٹاک شوز پر کرتے ہیں۔
نئی قانون سازی نے چیف جسٹس کے انتخاب کا اختیار پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کو دے دیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی اجازت دی ہے جو سپریم کورٹ کے ججز اور آئینی بینچز بنانے میں بااختیار ہوگی۔ آسان الفاظ میں کہیں تو ججز کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ بھی اس فیصلے میں شریک ہوگی کہ کون سا جج کس آئینی مقدمے کی سماعت کرے گا۔ اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ آئینی کیس کون سا ہے اور اسے آئینی بینچ کو بھیجنا چاہیے یا نہیں، یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ امید ہے کہ کوئی وکیل ہی اسے بہتر انداز میں سمجھا پائے گا۔
لیکن یہاں دو مسئلے ہیں۔ پہلا یہ کہ جوڈیشل کمیشن اب ان معاملات کو سنبھالے گا جوکہ براہ راست عدلیہ کے ماتحت ہونے چاہئیں جیسے کہ سماعت کون سا جج کرے گا اور کیوں کرے گا وغیرہ۔ حکومت کو بھی کسی حد تک آج تک اس پر یقین تھا۔ اگر ایسا نہیں تھا تو حکومت نے پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیوں پاس کروایا جس کے تحت یقینی بنایا گیا کہ چیف جسٹس اکیلے اختیارات کا استعمال نہ کریں اور دیگر ججز سے مشاورت کریں؟
ہم نے دیکھا کہ تین ججز جنہیں یہ اختیارات دیے گئے تھے، وہ صرف اس وقت ہی انہیں استعمال کرپائے کہ جب چیف جسٹس کا فیصلہ اکثریت کے حق میں تھا۔ جب وہ اکثریت میں شامل نہیں تو کمیٹی کی فعالیت اسی طرح تھی جس طرح حکومتوں کی کارکردگی۔
حکومت کو خدشات تھے کہ جمہوری راستے اختیار کرنے سے رفتار سُست ہورہی ہیں لہذا انہوں نے فوری طور پر فیصلہ کرنے کے اختیارات چیف جسٹس کو واپس کردیے۔
دوسرا مسئلہ یہ کہ قانون سازی کے بعد تشکیل دی جانے والی کمیٹی 5 ججز، اٹارنی جنرل، وزیرِ قانون، 4 اراکین پارلیمنٹ (دو حکومتی بینچز سے) اور اقلیت کا ایک رکن یا اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے منتخب کردہ ٹیکنوکریٹ پر مشتمل ہوگی۔ اس نئے سیٹ اپ سے یہی لگ رہا ہے کہ عدلیہ اور ججز مشترکہ طور پر فیصلے کریں گے۔ تاہم حقیقت میں حکومت کے پاس زیادہ اختیارات ہیں کیونکہ اسے 13 میں سے 5 ججز کی حمایت حاصل ہوگی۔
لیکن اصل طاقت تو اب ان لوگوں کے پاس ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ امکانات ہیں کہ یہ جوڈیشل کمیشن صرف حکومت کی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے ایسے فیصلے دے گا جو دیگر قوتوں کی جانب سے کیے گئے ہوں گے۔ حالیہ برسوں میں حکومت اور اپوزیشن ایسے نیب چیئرمین لے کر آئی ہیں جنہیں میثاقِ جمہوریت کے بجائے دیگر افراد نے ’مینج‘ کیا۔
یہ خیال کہ 4 اراکین پارلیمنٹ، اٹارنی جنرل اور وزیرِ قانون ایسے لوگوں سے طاقتور ہیں جو تمام سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کررہے ہیں، کسی صورت حقیقت پسندانہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ججز کچھ مختلف ہوں گے کیونکہ چیف جسٹسز بھی ماضی میں اور اب بھی کسی اور کی ہدایات پر کام کرتے آئے ہیں۔
حکومت اور اس کے اتحادی اس وقت ترمیم پر جشن منا رہے ہیں لیکن امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ابھی تو وہ اتوار کو کیے گئے فیصلے پر خوش ہیں لیکن انہیں بعد میں پچھتاوا ہوگا کہ جب وہ خود ترمیم کے ذریعے بنائے گئے بینچز اور ججز کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔
گزشتہ چند دنوں سے میرے ذہن کے پردے پر رضا ربانی کی وہ تصویر گھوم رہی ہے جب وہ 2015ء میں فوجی عدالت کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کررہے تھے۔ میں اس وقت اس حوالے سے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ ظاہر یہی ہورہا تھا کہ اس وقت کے سینیٹر رضا ربانی اپنے ضمیر کے خلاف جا کر ووٹ دینے پر مجبور تھے لیکن وہ اتنے مضبوط نہیں تھے کہ مستعفی ہوجاتے۔ انہوں نے وہی کیا جو انہیں کہا گیا اور انہوں نے چند آنسو بہا دیے۔ یعنی خواتین بھی کوشش کرتی ہیں کہ وہ عوامی مقامات میں آنسو بہا کر اپنی کمزوری ظاہر نہ کریں۔
ایک دہائی بعد اس واقعے نے شکر گزاری کا احساس دلادیا۔ حال میں ہمیں یہ مناظر نظر نہیں آتے کہ جہاں عوام کے منتخب کردہ نمائندگان ان کے بنیادی حقوق کی پروا کریں اور ان کے خلاف جانے پر افسوس کا اظہار کریں۔ ایک ماہ قبل اگر جمعیت علمائے اسلام (ف) ڈٹ کر کھڑی نہ ہوتی تو اراکین پارلیمنٹ تو بنا کسی افسوس اور جذبات سے عاری سپاٹ چہروں کے ساتھ خاموشی سے آئینی ترمیم منظور کرلیتے جوکہ فوجی عدالتوں کو اختیارات دے دیتی اور عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کرتی۔ اور ایسا کرتے ہوئے ان کی آنسو بھی نہیں چھلکتے۔ وہ پاکستان کے عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کرتے لیکن پھر بھی راتوں میں انہیں پُرسکون نیند آتی۔
یہ تھوڑا تلخ لگے لیکن آپ ایسے لوگوں سے کیا امید کرتے ہیں جو اس طرح ظاہر کررہے ہیں کہ جیسے یہ ان کے علم میں ہی نہیں کہ ان کے اپوزیشن ساتھیوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور انہیں اغوا کیا جارہا ہے؟ بلاول بھٹو زرداری سے دیگر تک، کوئی بھی قانون ساز اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، حتیٰ کہ جب بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر کو پارلیمنٹ آنے پر مجبور کیا گیا تب بھی وہ ان اقدامات کی مذمت نہیں کرتے ہیں۔
ایک لکھاری کے طور پر ایسے مناظر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھنا عجیب ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اُن صحافیوں کے لیے احساسِ تشکر بھی پیدا ہوتا ہے جو منتخب اراکین سے مشکل سوالات پوچھتے ہیں اور انہیں جواب دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم آنے والی نسلوں کے لیے یہی روایت چھوڑ کر جائیں گے کہ شر کے آگے آنکھیں بند کرلو۔
دائیں بازو کے نظریات رکھتے ہوں یا بائیں بازو کے، انگریزی بولتے ہوں یا اردو، خود کو لبرلز اور انسانی حقوق کا علم بردار کہنے والوں نے ایک بار بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ لیکن پھر وہی بات ہے کہ ماضی اور حال میں پیش آنے والے ایسے بہت سے واقعات ہیں جیسے لاہور میں بلوچ خواتین مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان پر فائرنگ کرتے ہوئے بھی انہیں افسوس نہیں ہوا۔
بہ ظاہر پاکستان میں عوام کے حقوق سے کئی زیادہ اہمیت پارلیمنٹ کی نشست کی ہے۔ تو ایک دہائی بعد میں رضا ربانی سے اظہارِ تشکر کرنا چاہوں گی۔ کم از کم انہیں اتنی پروا تھی کہ انہوں نے پارلیمان میں پچھتاوے کا اظہار کیا۔ شکریہ!
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔