• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

حکومت نے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال جاری رکھا تو مذاکرات ختم کردیں گے، مولانا فضل الرحمٰن

شائع October 18, 2024
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے متنازع 26 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے لیے تمام کوششوں کو ناکام اور حکومتی منصوبوں کو رد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکمرانوں نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال جاری رکھا تو وہ مذاکرات ختم کردیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے یہ الٹی میٹم اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر جے یو آئی-ف اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان 2 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد دیا۔

اس سے قبل میڈیا رپورٹس اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے عندیہ مل رہا تھا کہ ترمیم کے مسودے پر تقریباً اتفاق رائے ہو گیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن کی بالکل مختلف پوزیشن کے نتیجے میں وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے رات گئے ان سے ملاقات کی اور ان کو منانے کی کوشش کی۔

رات گئے تین دنوں میں تیسری پریس کانفرنس کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تن تنہا ہی بازی پلٹ دی اور حکومت کو اپنے اقدامات پر نظرثانی کی ہدایت کی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ مجوزہ آئینی ترمیم دو تین ہفتوں سے زیر بحث ہے اور اس پر مشاورت کا عمل جاری ہے، ہم نے پوری فراخدلی کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا جو مسودہ ہمارے پاس آیا تھا ہم نے اسے یکسر مسترد کردیا تھا اور ہم آج بھی اسے مسترد کرتے ہیں، اگر افہام و تفہیم کے ساتھ مذاکرات کیے جاتے ہیں اور ہم آگے بڑھتے ہیں تو ہم نے انہیں اس کے لیے انہیں خوش آمدید کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو دن قبل کراچی میں بلاول بھٹو زرداری سے ان کی رہائش گاہ پر اس حوالے سے چار پانچ گھنٹے تفصیلی گفتگو کی اور ترمیم کی ہر ایک شق کو زیر بحث لائے، جن چیزوں پر اتفاق ہوا ہم نے اس کا بھی میڈیا کے سامنے اعلان کیا اور کچھ چیزیں تھیں جو مشاورت کے قابل ہیں اور جن پر مشاورت ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کل جب نواز شریف صاحب کی رہائش گاہ پر مذاکرات ہوئے تو پیپلز پارٹی کے صدر مملکت آصف علی زرداری، بلاول بھتو زرداری، نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پوری ٹیم کے ساتھ طویل مشاورت ہوئی اور وہاں بھی کچھ حصوں پر اتفاق رائے ہو گیا اور کچھ چیزیں پھر بھی اس قابل تھیں کہ مشاورت جاری رکھی جائے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم متنازع شقوں پر بھی مفاہمت کے قریب ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ آج ہماری تحریک انصاف کی ٹیم کے ساتھ ملاقات تھی، ان کی قیادت یہاں تشریف لائی، ہم نے ساری صورتحال سے ان کو آگاہ کیا کیونکہ وہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے اور ایک بڑی جماعت کو اتنی بڑی آئینی ترمیم کے معاملے پر لاتعلق نہیں رکھا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں اس ترمیم کو حتمی شکل دینے میں بہت سی چیزیں رکاوٹ رہی ہیں، وہیں یہ رکاوٹ بھی رہی ہے کہ یہ متفقہ ہونی چاہیے اور اس میں صرف جے یو آئی کو نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جائے اور ہم اس کو ایک متفقہ ترمیم تک لے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا اس ترمیم کے بارے میں بہت مثبت رویہ رہا ہے اور معقول اور قابل قبول چیزوں پر ان کا کوئی معاندانہ رویہ نہیں ہے، ان چیزوں کو قبول کیا جا سکتا ہے اور آج قبول بھی کیا گیا ہے، کچھ چیزیں جن پر مشاورت درکار ہے ان کے حوالے سے یہ طے ہوا ہے کہ ان پر مشاورت کل بھی جاری رہے گی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں حکومت اور پیپلز پارٹی سے بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جو خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے اور جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے، اس میں مزید نمائندگی بڑھائی جائے، اس میں پاکستان بار کونسل کے نمائندوں کو ہونا چاہیے، اس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندے کو بھی ہونا چاہیے یا اس حوالے سے کوئی میکانزم بن سکتا ہے، وہ اسٹیک ہولڈرز ہیں تو ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں تمام جماعتوں کے ڈرافٹ پر کھلی بحث کی جائے تاکہ ہم اتفاق رائے تک پہنچ سکیں لیکن ہمیں ایسی رپورٹس مل رہی ہیں کہ جیسے ہمارے مفاہمت کے رویے کو حخومت آسان ہیں لے رہی، ایک طرف ہمارے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں اور دوسری جانب ہمارے پارلیمنٹ کے اراکین کو ہراساں کیا جا رہا ہے، کسی کو اغوا کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے ایک آدھ اراکین پارلیمنٹ تو اس وقت اغوا ہو چکے ہیں، ان کے بچے میرے گھر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک کو دھمکیاں دی گئیں، ایک کو بڑی بڑی رشوتوں کی پیشکش کی گئی لیکن اگر حکومت کا یہ رویہ رہتا ہے جیسا آج شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہوا، اختر مینگل کی خاتون رکن نے بیان دیا ہے کہ اس پر کتنا دباؤ ہے، ان کے رکن سینیٹ کی طرف سے بھی شکایات آ رہی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ اس قسم کی صورتحال بنتی ہے اور حکومت یہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتی ہے تو پھر ہم ان کے ساتھ مذاکرات کا عمل روکنے پر مجبور ہوں گے اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو گا، ہم یہ بدمعاشی ماننے کو تیار نہیں ہیں، ہم سے احترام کے ساتھ بات کرو تو احترام کے ساتھ جواب دیں گے، دلیل کے ساتھ بات کرو تو ہم بھی دلیل کے ساتھ جواب دیں گے، پورے احترام کے ساتھ دیں گے، آپ کو مطمئن کریں گے اور آپ ہمیں مطمئن کریں کیونکہ یہ سیاست کا میدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن جو حرکتیں آپ کررہے ہیں ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بھی وہ قبول نہیں کیں، آج بھی اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور اگر آپ کا رویہ بدمعاشی کا ہو گا تو پھر ہم بھی اپنا بدمعاشی کا رویہ جانتے ہیں، اس طریقے سے آسان نہیں ہے کہ آپ ہمارے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں، ہمارے خلوص اور نیک نیتی کا مذاق اڑاتے رہیں، ہماری سنجیدگی کا مذاق اڑاتے رہیں، ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم صبح تک اس تمام صورتحال کو تبدیل دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر تبدیل نہیں کیا گیا تو ہم کل اس سے سخت فیصلہ بھی لے سکتے ہیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مہمان نوازی پر مولانا فضل الرحمٰن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مولانا صاحب کے ساتھ اس گفت و شنید میں ہم شریک ہوئے اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو ترامیم ہونے جا رہی ہیں اس میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے ہم آپ کے ساتھ مل کر اور آپ کی رہنمائی میں کوشش کریں گے کہ جو پروپوزل آپ جمع کرائیں گے، آپ ہی کے ڈرافٹ کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی کمیٹی کے پہلے اجلاس سے ہی ہم یہ بات نوٹس میں لے کر آئے کہ ہمارے اراکین قومی اسمبلی کو اٹھایا جا رہا ہے اور ان کے اہلخانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے کسی ایک میٹنگ کو مس نہیں کیا اور بڑی بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ ان اجلاسوں میں شریک ہوئے، ہر میٹنگ میں ہماری کوشش رہی کہ ہم سے ڈرافٹ شیئر کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کرنے کے حوالے سے حکومت کی آئینی و قانونی حیثیت پر اعتراضات کے باوجود ہم اجلاس میں بیٹھے رہے تاکہ آئینی ترمیم کے معاملے کا حصہ ہوں لیکن آج ہم نے مولانا فضل الرحمٰن کے سامنے بھی یہی نکتہ اٹھایا کہ ایک طرف ہم مذاکرات کررہے ہیں، کمیٹی میں بیٹھے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں، ایک ایک شق کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو آپ ہراساں کررہے ہیں تو ایسی قانون سازی اور آئینی ترامیم کا فائدہ کیا ہے، ایوان بھی آپ کا ہے، زورزبردستی بھی آپ کی ہے، یہ لوگ بھی آپ کے ہیں تو جیسے آپ چاہیں قانون بنا لیں، اگر یہی طریقہ ہے تو ہم اس عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہماری ملاقات کے ساتھ تفصیلی ملاقات میں کئی چیزوں پر اتفاق ہوا ہے، کل ہماری ایک اور ملاقات ہو گی اور ہماری طرف سے سب کچھ فائنل ہو جائے گا لیکن ہم یہ نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ اگر حکومتی رویہ یہی رہا تو شاید ہم آگے نہ بڑھ سکیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے تمام جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کو نوٹس جاری کردیے ہیں کہ وہ سب اپنی پارٹی کے فیصلے کے تحت ووٹ دینے کے پابند ہوں گے اور کل کو وہ یہ شکایت نہ کر سکیں کہ پارٹی نے ہمیں کوئی ہدایات جاری نہیں کی تھیں۔

ایک سوال کے جواب میں جے یو آئی(ف) کے سربراہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے قیام کے حوالے سے سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے جو کہا کہ وہ ان کی اپنی رائے ہے، ہم اس حوالے سے بات کررہے ہیں، میری بلاول بھٹو سے بھی بات ہو گی اور ہم ایک حل تک پہنچیں گے، گفتگو ہونی چاہیے اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس ایوان سے کوئی متنازع ترمیم منظور کرائی گئی اور گردنیں توڑ کر اور ہاتھ مروڑ کر ان سے ووٹ لینے کی کوشش کی گئی تو کیا پھر یہ جمہوریت ہو گی، پھر ہم کہیں گے کہ اس نامزد پارلیمنٹ کو اتنی بڑی آئین سازی، قانون سازی اور ترمیم کا حق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس پر مجبور نہ کیا جائے کہ ہم دوبارہ اس موقف پر چلے جائیں کہ ہم پارلیمنٹ کی کسی کارروائی میں شامل نہیں ہوں گے، یہ بہت بڑا اقدام ہو گا۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024