پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے سالانہ 12 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کرے، آئی ایم ایف
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سالانہ موسمیاتی تبدیلیوں اور موافقت کی اصلاحات پر اپنی سالانہ جی ڈی پی کا ایک فیصد یعنی تقریباً 12 کھرب 40 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کرے، تاکہ بالخصوص سیلاب جیسے تیزی سے رونما ہونے والے شدید موسمی واقعات سے نمٹنے اور معاشی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ عدم مساوات کے خاتمے کی تیاری کی جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسپیشل پالیسی ایڈوائزری میں آئی ایم ایف نے نشاندہی کی کہ مالی، لیبر مارکیٹ، تجارت اور سرکاری انٹرپرائز (ایس او ای) توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت اصلاحات سے پانچ سالوں میں پاکستان کی ترقی میں 2 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ عدم مساوات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے میں فعال سرمایہ کاری قدرتی آفات کے منفی اثرات کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے اور اس کی بدولت تیز تر اور مکمل بحالی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایڈاپٹیشن انفرااسٹرکچر میں جی ڈی پی کی تقریباً ایک فیصد سرمایہ کاری پاکستان کی موسمیاتی کی لچک میں اضافہ کرتے ہوئے آب و ہوا کے خطرناک اثرات کو دور کرے گی، اس طرح کی سرمایہ کاری قدرتی آفات کے اثرات کو تقریباً ایک تہائی تک کم کرے گی اور پاکستان کو اس کی پرانی جی ڈی پی کی سطح پر تیزی سے واپس لائے گی۔
کلائمیٹ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسسمنٹ (سی-پیما) ایکشن پلان کے مطابق عوامی سرمایہ کاری کی کارکردگی میں اضافہ آب و ہوا لچک کو مزید بہتر بنائے گا۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے اپنائے گئے سی پیما ایکشن پلان کے نتیجے میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے کلائمیٹ ریزیلینس ونڈو کے تحت 2 ارب ڈالر تک کی اضافی فنانسنگ کی درخواست کی ہے، رواں ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آئندہ سالانہ اجلاسوں میں اس فنانسنگ پر مزید بات چیت متوقع ہے۔
لچک کو بڑھانے کے لیے درکار اضافی سرمایہ کاری قرض کی سطح کو معتدل طور پر بلند کرنے کا باعث بنے گی، ایک ایسی صورت حال جس میں مالی کھپت اور انکم ٹیکس نے اس طرح کے جھٹکوں کا جواب دیا ہے بحالی کے بعد عوامی قرضوں کو نیچے کی طرف لے جائے گا، حالانکہ کسی بڑی قدرتی آفت کے پیش نظر اس طرح کی پالیسی قابل عمل یا مطلوب دہ نہیں ہوسکتی ہے۔
اس طرح مالی استحکام اور مالیاتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر مزید پیش رفت مالیاتی خلا کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے جو اس طرح کے جھٹکوں کو برداشت کرنے کے لیے ضروری ہوگی۔
پالیسی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا معیار زندگی کئی دہائیوں سے نچلی سطح پرجارہا تھا اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں اسی طرح کے آغاز کے باوجود پاکستانیوں کی آمدنی جمود کا شکار رہی اور وہ اپنے پڑوسی ممالک سے پیچھے رہ گئے، اس کے ساتھ ساتھ غربت کی شرح بلند رہی اور سماجی ترقی کے اشارے بھی پیچھے رہ گئے۔
انسانی سرمائے اور کارکردگی سے حاصل ہونے والی ترقی میں شراکت کم تھی، صحت اور تعلیم کے اشاریے حالیہ برسوں میں بہتر ہونے کے بجائے علاقائی اور کم درمیانی آمدنی والے افراد سے پیچھے ہیں، جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر انسانی سرمائے کے اخراجات میں مسلسل کمی آئی ہے۔
ان ساختی کمزوریوں کے نتائج آب و ہوا کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں، آئی ایم نے کہا کہ پاکستان کی آب و ہوا کو عالمی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ گرمی کی شرح کا سامنا ہے، یہ موسمیاتی تغیرات اور خطرناک مسائل کی وجہ بنے گا جس میں پانی میں کمی، زیادہ شدید اور طویل خشک سالی، برفانی تودوں کا تیزی سے پگھلنا، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ شدید مون سون اور ساحلی بستیوں اور انفرااسٹرکچر پر سمندر کی سطح میں اضافہ شامل ہے۔
اس طرح کی تبدیلی کے منفی میکرو اکنامک نتائج پہلے ہی محسوس کیے جا چکے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کے نتیجے میں 1992 اور 2021 کے درمیان 29.3 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، جو 2020 کے جی ڈی پی کے 11.1 فیصد کے مساوی ہے، جس نے ترقیاتی رفتار کو متاثر کیا ہے۔
2022 کا سیلاب 1,700 افراد کی موت کی وجہ بنا، 80 لاکھ بے گھر ہوئے، غربت کی شرح میں چار فیصد پوائنٹس تک اضافہ ہوا، تعمیر نو کی ضروریات کا تخمینہ مالی سال 2023 کے بجٹ قومی ترقیاتی اخراجات سے 1.6 گنا لگایا گیا ہے۔
تقریباً 80 ممالک کے کچھ معاشی ماڈلز کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے مشاہدہ کیا کہ مالی، ساختی اور مارکیٹ اصلاحات پر مشتمل مکمل اصلاحاتی منظر نامے سے پاکستان کی پیداوار کی سطح میں پانچ سالوں میں 7 فیصد اضافے میں مدد مل سکتی ہے۔
پالیسی پیپر میں کہا گیا ہے کہ اسٹرکچرل ریفارمز سے پاکستان کی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے اور ان کے مشترکہ اثرات سے حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو میں 2.13 فیصد کا درمیانی مدت کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے اقتصادی ماڈلز نے تجویز کیا کہ ان تمام اصلاحاتی راستوں کا حصول پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے تاکہ وہ کامیابی سے اپنے ترقیاتی ماڈل کو سبسڈی، ترجیح اور تحفظ پر مبنی نظام سے منتقل ہوجائے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ اصلاحات کی ترتیب بھی اہم ہوگی، مثال کے طور پر پروڈکٹ مارکیٹ میں اصلاحات جس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا، لیبر مارکیٹ میں مزید مشکل اصلاحات کی حمایت کر سکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، آئی ایم ایف نے دلیل دی کہ آب و ہوا کی کمزوریوں سے بچنے اور لچک پیدا کرنے کے لیے موافقت کی سرمایہ کاری کے ساتھ ان اصلاحات کی تکمیل فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔