• KHI: Asr 4:27pm Maghrib 6:04pm
  • LHR: Asr 3:51pm Maghrib 5:29pm
  • ISB: Asr 3:54pm Maghrib 5:33pm
  • KHI: Asr 4:27pm Maghrib 6:04pm
  • LHR: Asr 3:51pm Maghrib 5:29pm
  • ISB: Asr 3:54pm Maghrib 5:33pm

سارہ شریف قتل کیس میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آگئے

شائع October 15, 2024
—فوٹو: ہینڈآؤٹ
—فوٹو: ہینڈآؤٹ

پاکستانی نژاد برطانوی 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کیس میں اہم پیش رفت کے دوران برطانوی عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سارہ کے والد عرفان شریف اپنی بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ سارہ شریف کے والد نے فون کال پر اعتراف جرم کرتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ اس نے بیٹی کو ’قانونی طریقے سزا‘ دی تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔

یاد رہے کہ اولڈ بیلی میں سارہ قتل کیس کی سماعت کے دوران 42 سالہ عرفان شریف، سارہ کی 30 سالہ سوتیلی والدہ بینش بتول اور عرفان کے 29 سالہ بھائی اور سارہ کے چچا فیصل ملک نے قتل کے الزام سے انکار کیا تھا۔

گزشتہ سال 10 اگست کو برطانوی پولیس کو 10 سالہ سارہ شریف کی لاش سرے میں ان کے گھر سے ملی تھی، پوسٹ مارٹم ٹیسٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ انہیں کئی زخم آئے تھے اور شدید زخم طویل عرصے سے موجود تھے۔

بعد ازاں، اگلے ہی دن سارہ شریف کے والد نے پاکستان سے 999 پر فون کال کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ’میں نے اسے مار مار کر قتل کردیا، حالانکہ میرا ارادہ اسے مارنے کا نہیں تھا لیکن بہت زیادہ تشدد کی وجہ سے وہ مرگئی‘۔

سارہ کی موت کے 36 گھنٹے بعد کی گئی فون کال میں عرفان شریف نے خود کو ظالم باپ قرار دیتے ہوئے کہا ’سارہ گزشتہ کئی ہفتوں سے شرارتیں کررہی تھیں جس پر میں نے اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا لیکن تشدد کے بعد میں نے اسے سی پی آر دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔

استغاثہ کے مطابق پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس وقت سارہ کی لاش کے آگے عرفان شریف کا لکھا ہوا ایک خط بھی موجود تھا جس میں انہوں نے قتل کا اعتراف کیا۔

نوٹ میں لکھا تھا ’میں عرفان شریف ہوں جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں نے اسے کھو دیا‘۔

خط میں انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈر کر بھاگ رہے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عرفان شریف نے خط میں مزید لکھا ’آئی لو یو سارہ‘۔ انہوں نے خط میں درخواست کی ’میری بیٹی مسلمان ہے، کیا تم اسے دفن کرسکتے ہو، جیسے کہ مسلمان کو کیا جاتا ہے، میں پوسٹ مارٹم مکمل کرنے سے پہلے واپس آ جاؤں گا‘۔

استغاثہ نے عدالت میں کہا کہ فون کال کی طرح بظاہر یہ نوٹ بھی اعتراف جرم ہے کہ سارہ کی موت تشدد سے ہوئی۔

پراسیکیوٹر املن جونز نے عدالت کو بتایا کہ یہ کیس اتنا سادہ نہیں، سارہ کو کئی ہفتوں سے تشدد کا سامنا تھا۔

پراسیکیوٹر نے سارہ کے زخموں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ’بچی کے جسم پر اندرونی اور بیرونی چوٹیں اور زخم تھے، سارہ کی کچھ ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں اور جسم پر استری سے جلانے جیسے نشانات بھی تھے۔

واضح رہے کہ سارہ شریف کی لاش گزشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی جس سے ایک ہی دن قبل ان کے اہل خانہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔ سارہ کے والد عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی فیصل ملک پولیس کو اس وقت سے مطلوب تھے۔

گزشتہ سال ستمبر میں برطانیہ میں بچی کے قتل کے الزام میں والد، سوتیلی ماں اور چچا کو گرفتار کرنے کے بعد مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جن کو عدالت نے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

سارہ شریف کے قتل میں ملوث ان کے والد، سوتیلی ماں اور چچا لاش برآمد ہونے سے قبل پاکستان پہنچ گئے تھے جن کو دبئی سے گرفتار کرنے کے بعد برطانیہ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

اس سماعت سے 2 روز قبل ہی تینوں ملزمان کو پاکستان میں ایک ماہ گزارنے کے بعد دبئی کی پرواز سے اترتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 16 اکتوبر 2024
کارٹون : 15 اکتوبر 2024