• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لچک دکھائی جائے تو آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

شائع October 11, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق رائے اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے آج مجوزہ آئینی ترامیم سے متعلق مسودے کی کاپیاں تقسیم کیں، ہمارے وکلا مسودے کی کاپیاں دیکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے دیگر اتحادیوں کو بھی مسودے پر اعتماد میں لیا جائے گا، مسودے پر اتفاق رائے اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ لچک کا مظاہرہ کیا جائے، اب تک ہم نے ووٹ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ترامیم کا حکومتی تصور ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مسودے سے قابل اعتراض مواد کو صاف کیا جائے، ہم اپنی تجاویز لا رہے ہیں، ان کو آمادہ کر رہے ہیں، جب ہماری تجاویز پر عمل ہوگا تو ہم اس قابل ہوں گے کہ ووٹ دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ترامیم ہمارے نظریے کے مطابق نہیں ہوتیں تو پھر یہ کہنا کہ ہمارے نمبر پورے ہیں، نمبر پورے ہوجائیں گے، یہ باتیں سیاسی بداخلاقی بھی ہے، اس سے آئین کو متنازع بنانے کی بھی ایک بنیاد پڑ جائے گی، کیوں نہ ہم اتفاق رائے سے چلیں، اس کا ہر سمت سے خیرمقدم ہونا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم آج حکومتی مسودے پر غور کا آغاز کر رہے ہیں، 19ویں ترمیم ختم کرکے 18ویں ترمیم کو بحال کیا جائے، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے کی طرف جانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 18ویں ترمیم پر بھی اسی طرح اتفاق کیا تھا، امید ہے کہ حکومت ہماری تجاویز پر راضی ہوجائے گی، 19ویں ترمیم کے خاتمے سے ججوں کے تقرر میں پارلیمان کا کردار بڑھے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو 19ویں آئینی ترمیم ختم کرنے کی تجویز دی ہے، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی متفقہ مسودے کی طرف بڑھیں گی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عدلیہ کو سیاست میں تقسیم نہ کریں، جج، جج ہوتا ہے، اس کو جج ہی رہنے دیں، جج بھی اپنے رویے سے عوام کو مطمئن کریں کہ وہ غیر جانبدار ہو کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024