• KHI: Maghrib 5:53pm Isha 7:15pm
  • LHR: Maghrib 5:09pm Isha 6:36pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:38pm
  • KHI: Maghrib 5:53pm Isha 7:15pm
  • LHR: Maghrib 5:09pm Isha 6:36pm
  • ISB: Maghrib 5:09pm Isha 6:38pm

قائمہ کمیٹی کا خاتون کے لباس پر اعتراض کرنے والے رہنما پی ٹی آئی سے معافی کا مطالبہ

شائع October 3, 2024
فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور نے گزشتہ اجلاس کے دوران کے الیکٹرک کی نمائندہ خاتون کے لباس پر اعتراض کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی سے معافی مانگننے کا مطالبہ کیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کا محمد ادریس کی زیر صدارت اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران رکن نوشین افختار نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں ممبر کمیٹی اقبال آفریدی نے ایک خاتون افسر کے بارے میں ریمارکس دیے، میں اس پر معذرت خواہ ہوں، اقبال آفریدی کو بھی اپنے ریمارکس پر معافی مانگنی چاہیے۔

پوری کمیٹی نے نوشین افتخار کے مطالبے کی حمایت کر دی، خورشید جونیجو نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارٹی لبرل جماعت یے وہ مطالبے کی حمایت کرتی ہے، ہماری جماعت کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو رہیں،

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم سب کا یہی موقف ہے، پہلے اسپیکر سے قائم کمیٹی کی رپورٹ آنے دیں۔

کمیٹی کے رکن اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق نے سوال اٹھایا کہ کے الیکٹرک نے گزشتہ 5 سالوں میں برسات کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ کے الیکٹرک نے 5 سال میں کتنے بجلی کھمبوں کو ارتھ کیا۔

سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ اس سال برسات میں ٹریپنگ گزشتہ سال سے بہت کم ہے، ہمارے نظام لائیو بتا رہا ہوتا ہے کہ کتنے فیڈر چل رہے ہیں یا بند ہیں، ہمارے 2 لاکھ 30 ہزار کھمبے ہیں اور تمام کی ارتھ ہوئی ہے۔

سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ دو سال میں کوئی اموات کھمبے سے کرنٹ لگنے سے نہیں ہوئی، ہمیں ایک حادثے کا نییرا نے ذمہ دار قرار دیا، حادثہ تھرڈ پارٹی کے کمپاؤنڈ میں ہوا۔

امین الحق نے کہا کہ سی ای او کے الیکٹرک کے جواب سے لگتا ہے کہ کراچی میں سب اچھا ہو رہا ہے، ہمیں کھمبوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانا چاہے، سی ای او کے الیکٹرک 4 سے 6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا بتا رہے ہیں، کراچی میں 4 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، فالٹ کے نام پر 12 سے 36 گھنٹے بعد بجلی بحال ہوتی ہے۔

چیئرمین کمیٹی محمد ادریس نے کہا کہ آئندہ اجلاس کراچی میں کریں گے تا کہ صورتحال کا بہتر اندازہ ہو۔

رکن شیر علی ارباب نے کہا کہ میں پشاور ایک گرڈ اسٹیشن پر دعا خیر کے لیے گیا، پچھلے دور میں یہ فیڈر میری کوشش سے منظور ہوا، 4 دن کے بعد پیسکو کی آفیشل سائٹ سے ایک پوسٹ چلی۔

شیر علی ارباب نے مزید کہا کہ اس پوسٹ میں کہا گیا کہ نیو اسلامی فیڈر کو ایم این اے شیر علی ارباب نے زبردستی گھس کا فیڈر پر تختی لگائی، اس فیڈر کے ایس ڈی او کو معطل کر دیا گیا، اس کے بعد پیسکو نے میرے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی درخواست دی، اگر ممبران کو اعتراض ہے تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہوں۔

رکن کمیٹی جنید اکبر نے کہا کہ اگر کمیٹی ممبران اپنے ممبر کی عزت کا خیال نہیں رکھ سکتے تو میں احتجاج میں بائیکاٹ کرتا ہوں، رکن کمیٹی جنید اکبر اور شیر علی ارباب اجلاس سے بائیکاٹ کر گئے، چیئرمین کمیٹی ناراض اراکین کو منانے اجلاس سے باہر چلے گئے اور دونوں اراکین کو منا کر واپس لے آئے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں تمام اراکین کی عزت کا خیال رکھنا ہے، پیسکو حکام ایک ہفتے میں واقعہ کی تفصیلی رپورٹ فراہم کریں، اجلاس میں لائف لائن اور پروٹیکٹڈ صارفین کے تعین کرنے کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔

شیر علی ارباب نے کہا کہ چیئرمین نیپرا وسیم مختار اجلاس میں خود نہیں آئے اور بہت جونیئر شخص کو بھیجا ہے، سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ کمیٹی نے چیئرمین نیپرا کو نہیں بلایا تھا، کمیٹی کو فراہم کردہ جواب میں تمام معلومات فراہم کی گئی ہیں، کمیٹی چاہیے تو آئندہ اجلاس میں چیئرمین نیپرا کو اجلاس میں بلا سکتی ہے۔

نیپرا حکام نے کہا کہ کمیٹی کو آئی پی پیز کے ساتھ حکومت کے معاہدوں کی مکمل تفصیلات فراہم کر دی گئی ہیں، رکن کمیٹی خورشید جونیجو نے کہا کہ یہ آئی پی پیز کا معاملہ ہے اس پر چیئرمین نییرا کو موجود ہونا چاہیے۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ ٹاسک فورس مذاکرات کر رہی ہے، وفاقی وزیر امیر مقام نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آئی پی پیز کی رپورٹ مکمل ہو جائے تو پھر بریفنگ لی جائے، سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ ٹاسک فورس نے کافی کام کیا ہے زیادہ تر آئی پی پیز کے ساتھ بات ہو چکی۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے گزشتہ اجلاس میں پی ٹی آئی کے ایم این اے و رکن کمیٹی اقبال آفریدی نے کے الیکٹرک کی نمائندہ خاتون کے لباس پر اعتراض عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ کے الیکٹرک کی خاتون جس لباس میں اجلاس میں شریک تھیں وہ قابل اعتراض ہے، اس طرح کے لباس میں اجلاس میں شرکت نہیں ہونی چاہیے۔

اقبال آفریدی نے لباس پراعتراض کمیٹی سے خاتون کے واپس جانے کے بعد ان کی عدم موجودگی میں اٹھایا تھا جب کہ چیئرمین کمیٹی نے اقبال آفریدی کے معاملے پر معذرت کر لی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 30 دسمبر 2024
کارٹون : 29 دسمبر 2024