اسٹیٹ بینک سے آئی پی پیز کی اوور انوائسنگ کی تفصیلات طلب
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے آئی پی پیز کی اوور انوائسنگ کی تفصیلات طلب کر لیں۔
ڈان نیوز کے مطابق سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا، چیئرمین کمیٹی نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) فنڈز کے استعمال پر سوالات اٹھائے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے آئی ایم ایف کے فنڈز کہاں استعمال ہوئے، اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ان کے پاس جو بھی بیرونی کرنسی میں پیسہ آتا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کا حصہ بنتا ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ان کے پاس آنے والے فنڈز ادائیگیوں کے توازن پر خرچ ہوتے ہیں، آئی ایم ایف کی رقم کرنٹ اکاونٹ میں استعمال ہوتے ہیں، کرنٹ اکاونٹ میں ٹریڈ اکاوئنٹ بھی شامل ہے۔
سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ہمارا سوال بہت آسان ہے کہ 2018 کے بعد آئی ایم ایف کے کتنے پیسے آئے، یہ بتا دیا جائے جو پیسے آئے کہاں کہاں اور کتنے خرچ ہوئے؟
آئی ایم ایف فنڈز کے استعمال کی تفصیلات طلب
اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ہم یہ تفصیلات کمیٹی کو فراہم کر دیں گے جس پر سینیڑ سیف اللہ نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا 26 پروگرام ہے، اسٹیٹ بینک تمام اکاؤنٹس میں خسارے، آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد اثرات کی تفصیلات فراہم کرے یہ معلومات تین اجلاسوں سے مانگ رہے ہیں یہ 3 روز میں فراہم کی جائے۔
کمیٹی چیئرمین نے پوچھا کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے خلاف 65 ارب روپے سے زائد کا منافع کمانے پر کیا کارروائی کی، سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بھی اس کو تسلیم کیا اور تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔
اسٹیٹ بینک کے حکام کا کہنا تھا کہ کوویڈ پروگرام کی ہم نے درخواست نہیں کی تھی یہ سب کو دیا گیا، بینکوں نے اوور انوائسنگ کی، ریگولیٹری خلاف ورزی ہوئی اس پر اسٹیٹ بینک نے کارروائی کی تھی۔
منافع کمانے والے بینکوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ یہ اوور انوائسنگ کیا ہوتا ہے، کل سارے میڈیا پر خبریں تھیں کہ آئی پی پیز نے اوور انوائسنگ کی، اس اوور انوائسنگ سے ملک کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان ہوا، اسٹیٹ بینک کو اپنی رپورٹ کمیٹی کو دینا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک اپریل 2002 سے ستمبر 2022 تک ایل سیز کی تفصیلات فراہم کرے، تفصیلات میں اس دن کا ڈالر کا ریٹ ، ایل سی کھولنے والے بینک کا ریٹ فراہم کیا جائے۔
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ کیا کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا؟ جس پر حکام اسٹیٹ نے جواب دیا کہ اسٹیٹ بینک نے ریگولیٹری خلاف ورزی پر کارروائی اور جرمانہ کیا، بینکوں کو ایک ارب 40 کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 65 ارب روپے کمانے کے بعد 1.4 ارب روپے ادا کر دیئے گئے۔
سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ یہ معاملہ اس طرح نہیں بند کرنے دیں گے ، یہ عوام کی رقم ہے اس کی وصولی کریں گے۔